ملتان ( نمائندہ خصوصی)امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ وفاقی وصوبائی بجٹ کو ماہرین معیشت اور حکومت کے اتحادیوں نے بھی مسترد کردیا ہے یہاں تک کہ جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے لیے بھی وفاقی وصوبائی بجٹ میں فنڈز نہیں رکھے گئے۔ ٹڈی دل سے کاشتکاروں کا1ہزار ارب روپے کا نقصان ہوا ہے ۔حکومت نے کورونا وائرس کو سنجیدہ نہیں لیا جس کی وجہ سے 4ماہ بعد بھی اس وبا پر قابو نہیں پایا جا سکا۔کورونا وائرس کی وبا پر کئی ممالک قابو پاچکے ہیں مگر ہمارے ہاں یہ وبا مسلسل بڑھ رہی ہے۔ حکومت لیبارٹریوں اور ڈاکٹروں کے لیے بھی حفاظتی لباس کا انتظام نہیں کرسکی۔حکومت لاک ڈاﺅن کو مو¿ثر نہیں بنا سکی۔ لاک ڈاﺅن سے وائرس ختم نہیں ہوتا بلکہ اس میں وبا سے لڑنے کے انتظامات کیے جاتے ہیں ۔ اس حکومت نے صحت کا نظام ڈبلیوایچ او اور معیشت کا نظام آئی ایم ایف کے حوالے کیا ہوا ہے۔جماعت اسلامی کو اقتدار ملا تو ایسا معاشی نظام پیش کریں گے جس کے تحت ہمیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سامنے کشکول پھیلانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ اسلامی نظام معیشت کے ذریعے ہی ملک کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔ نیب خود مختار ادارہ نہیں ہے۔ مڈٹرم الیکشن کا مطالبہ تمام اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کے بعد ہونا چاہیے۔ان خیا لات کاا ظہار انہوں نے مدرسہ جامع العلوم ملتان میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر امیر جماعت اسلامی جنوبی پنجاب راﺅ محمد ظفر، صوبائی سیکر ٹری جنرل صہیب عمار صدیقی،خورشید خان کانجو،مولانا محمود بشیر، مولانا عبدالرزاق،حافظ محمد اسلم اورکنور محمد صدیق بھی موجود تھے۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ وفاقی وصوبائی بجٹ میں جنوبی پنجاب صوبے کے قیام اور عوام کے لیے کوئی بڑی خوشخبری نہیں ہے اور نہ ہی کسی میگا پروجیکٹ کوبجٹ کا حصہ بنایا گیا ہے یہاں تک کہ جاری ترقیاتی کاموں کے لیے بھی ضرورت کے مطابق فنڈز نہیں رکھے گئے۔ جنوبی پنجاب کے عوام کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں اور ٹڈی دل کے حملے نے کاشتکاروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے کاشتکاروں کے نقصان کو مد نظر نہیں رکھا۔ تحریک انصاف نے انتخابات کے موقع پر پیپلز پارٹی ، ن لیگ کی طرح علیحدہ صوبے کے قیام کا وعدہ کیا تھا لیکن صوبے کے قیام کے پہلے مرحلے کے لیے بھی فنڈز مہیا نہیں کیے گئے ۔ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت نے بھی عوام سے دھوکا اور ان کی تمناﺅں کا خون کیا ہے۔ موجودہ حکومت کو22ماہ مکمل ہونے والے ہیں حکومت نے فراڈ بجٹ پیش کیا ہے جس میں تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ دکھا یاگیا ہے۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ اب فی کس آمدنی بھی کم ہوگئی ہے اور ٹیکس جمع کرنے کے بارے میں بھی خیالی پلاﺅ پکائے جارہے ہیں جس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں۔ پاکستان واحد ملک ہے جس کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے لیکن قومی ترقی کی شرح کم ہورہی ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔وزیر اعظم نے اقتدار میں آنے سے قبل ہر جلسے میں اعلان کیا تھا کہ وہ پیٹرول کی قیمت 48روپ فی لیٹر تک لائیں گے پوری دنیا میں جب پیٹرول پانی کی طرح بہہ رہا ہے ، تب بھی پاکستان کے عوام کو پیٹرول نہیں مل رہا۔ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کرنے والی حکومت کے وزرا کہہ رہے ہیں کہ 1کروڑ70لاکھ افراد بے روزگار ہوں گے۔ 10لاکھ صنعتی یونٹس اور50لاکھ گھر بنانے کا وعدہ پورا نہیں ہوا اور نہ ہی بھاشا ڈیم کی تعمیر کی طرف کوئی توجہ دی جارہی ہے۔ مدینے جیسی ریاست بنانے کے دعویدارحکمرانوں کے دور میں سودی نظام مسلط کردیا گیا ہے ۔ یہ بجٹ نہ تو قومی اسمبلی نے بنایا ہے اور نہ ہی پی ٹی آئی کی قیادت نے بلکہ یہ بجٹ آئی ایم ایف نے بنایا ہے اور انہی کے کاغذات کو وزیر صنعت نے اسمبلی میں پیش کیا ہے جسے معیشت کے ماہرین نے مسترد کیا ہے کیونکہ اس سلسلے میں تاجروں، صنعتکاروں، مزدوروں، محنت کشوں اور عوام کے نمائندوں سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ گزشتہ 2 برس میں سی پیک کے منصوبے کو نہ صرف فریز کردیا گیا ہے بلکہ اس پر کام بند ہے جس پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے عوام شدید رد عمل کا اظہار کررہے ہیں ۔ موجودہ حکمرانوں کا مرغی اور انڈوں کا فلسفہ بھی ختم ہوگیا ہے حکومت اب مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ اب دفاع بھی خود کرو اور صحت کا خیال بھی خود رکھو۔انہوں نے کہا کہ کورونا کے کنٹرول پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ۔ اسپتالوں میں بستر نہیں ہیں لاک ڈاﺅن پر سنجیدہ رویہ اختیار نہیں کیا جاتا۔بنگلا دیش ،بھارت ، برطانیہ سمیت دنیا کے کئی ممالک نے کورونا پر قابو پانے کے لیے اپنی آمدنی کا10فیصد فنڈ مختص کیا ہے جبکہ پاکستان نے صرف 70 ارب روپے مختص کیے ہیں جو کہ ناکافی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کے پاس اکانومی ، ملک کے جغرافیے ، کشمیر اور شہریوں کی بہتری کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں ہے تعلیم، صحت کی سہولتیں نہیں ہیں کورونا کے نام پر انہیں دینی و دنیوی تعلیم سے محروم رکھا جا رہا ہے۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ جماعت اسلامی کے پاس ملک کا نظام چلانے کے لیے مکمل اور متبادل اسلامی نظام معیشت موجود ہے ہم 40سے45 ٹیکس ختم کرکے صرف زکوٰة وعشر کا نظام نافذ کریں گے۔ اسلامی نظام معیشت میں اس وقت ساڑھے7کروڑ عوام زکوٰة دینے کے قابل ہیں اگر ملک میں اسلامی نظام معیشت ہوگا تو ہمارے پاس اتنے فنڈز ہوں گے کہ خرچ کرنے کی جگہ نہیں ہوگی۔ 70سال سے حکمرانوں نے ہمیں نظریہ اور جغرافیہ سے محروم رکھا ہے۔آج حکومت لڑ کھڑا رہی ہے اور ان کے اتحادی بھی ناراض ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اختر مینگل حکومت کے اتحادی تھے وہ یقیناََ مایوس ہوکر اتحاد سے علیحدہ ہوئے ہیں۔ اختر مینگل کا موقف جاندار ہے حکومت نے بلوچوں سے وعدے پورے نہیںکیے، اختر مینگل کی علیحدگی جہاں حکومت کی عددی اکثریت میں کمی کا سبب بنی ہے وہیں اس سے حکومت کی اخلاقی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نیب حکومت کا ذیلی ادارہ بن چکا ہے حالانکہ نیب کو غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے فیصلے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عدالت کے فیصلے نے قوم کی ترجمانی اور حکمرانوں کی نا اہلی ثابت کی ہے حکمرانوں کو معافی مانگنی چاہیے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دینی مدارس میں لاکھوں بچے زیر تعلیم ہیں اسی طرح دنیاوی تعلیم کا سلسلہ بھی کورونا کی وجہ سے بند کیا گیا ہے جس سے جہاں تعلیمی نقصان ہورہا ہے وہاں اساتذہ بے روزگار ہورہے ہیں۔ ان حالات میں مطالبہ ہے کہ تما م تعلیمی اداروں میں ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے ان کو کھولا جائے اوردینی و ونیوی تعلیم کے نظام کوبحا ل کیا جائے تاکہ قوم کے ہونہاروں کو ان پڑھ رہنے سے محفوظ رکھا جا سکے۔