جارج فلائیڈ… ایک غیر مسلح سیاہ فام امریکی تھا۔ جس کو ایک امریکی پولیس آفیسر نے قتل کردیا۔ یہ قتل جارج فلائیڈ کی گردن پر گھٹنا ٹیک کر کیا گیا۔ اس قتل نے امریکا میں ایک بے قابو تباہی کا آغاز کردیا۔ اس تباہی کی کئی سمتیں ہیں۔ پچھلے جمعہ کو ہونے والے مظاہرین پر آنسو گیس کے گولے داغے گئے، آخر ان سے نمٹنے کے لیے منی سوٹا کے علاقے میں کرفیو لگادیا گیا لیکن اس کے باوجود لوٹ مار اور خطرناک واقعات جیسے گاڑیوں میں آگ لگانا وغیرہ ہوئے۔ اُسی شام واشنگٹن میں وائٹ ہائوس کے سامنے لوگوں کی ایک بھیڑ جمع تھی جو فلائیڈ کی تصویر اُٹھائے نعرے لگارہی تھی ’’میں سانس نہیں لے پارہا‘‘ یہ وہ آخری الفاظ تھے جو فلائیڈ نے ادا کیے۔ یہ الفاظ پہلی دفعہ ادا نہیں کیے گئے۔ 2014ء میں نیویارک میں ایک سیاہ فام ’’ایرک گارنر‘‘ نے بھی یہی الفاظ ادا کیے تھے۔ امریکا میں پولیس کے ہاتھوں ہر سال 1200 افراد مارے جاتے ہیں اور اکثریت کالوں کی ہوتی ہے۔ گویا لاوا کافی دیر سے پک رہا تھا۔ لہٰذا اٹلانٹا میں بھی ہنگامی صورت حال نافذ کردی گئی ہے۔ شکاگو، لاس اینجلس اور میمنس میں بھی مظاہرے ہوئے جس میں تقریروں میں کہا گیا کہ یہ پہلی بار نہیں ہوا، اکثر یہی ہوتا ہے کہ سیاہ فام امریکیوں کو حراست میں لیتے ہوئے زیادہ طاقت استعمال کی جاتی ہے، یعنی اتنی کہ وہ شخص یا تو موقع پر ہی جان سے گزر جاتا ہے یا پولیس حراست کے دوران جان سے جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکی معاشرے میں ایک قاتل وائرس کووڈ 19 تو اب آیا ہے لیکن ایک قاتل وائرس یعنی نسل پرستی ایک طویل عرصے سے موجود ہے جو دیمک کی طرح امریکی معاشرے کو کمزور کررہا ہے۔ دوسری طرف امریکی معاشرے کی مضبوطی کے لیے مناسب اقدام نہیں اُٹھائے جارہے جس میں متاثرین کے لیے انصاف کی فراہمی اہم ترین قدم ہے۔ تحقیقاتی ادارے ’’میپنگ پولیس وائیلنس‘‘ نے بتایا کہ 2013ء سے لے کر 2019ء کے درمیان پولیس کے ہاتھوں 7666 افراد کے قتل کی دستاویزات جمع کیں گئیں ان میں صرف 99 افسران کے خلاف الزامات عائد ہوئے اور اُن میں سے پھر بھی صرف 25 کو سزائیں سنائی گئیں۔ یہ اس لیے کہ اکثر عدالتوں کے دروازے بند ہوتے ہیں کیونکہ ایسے واقعات پر ’’استثنا کی اہلیت‘‘ کے اصول کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ اصول سرکاری ملازمین کو اس طرح کے الزامات کے مقدمات سے محفوظ بناتا ہے۔ واشنگٹن کے ایک تحقیقاتی ادارے ’’کیٹورنسٹی ٹیوٹ‘‘ کے نائب صدر کلاک نیل کہتے ہیں کہ ’’کسی بھی سرکاری افسر کے خلاف ایسی صورت حال میں مقدمہ دائر کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے لہٰذا استثنا کے اس اصول کے باعث جارج فلائیڈ کے ورثا کے لیے بھی انصاف حاصل کرنا بہت مشکل ہوگا‘‘۔ یہ معاملہ امریکی کانگریس میں بھی اُٹھایا جارہا ہے۔ جہاں پولیس کے مظالم کے خلاف ایک قرار داد جمع کرائی گئی۔ میسا چوسٹس کی ایک رکن کانگریس ’’اپانا پریسلی‘‘ کہتی ہیں ’’عرصے سے پولیس کی طرف سے سیاہ فام اور گندمی رنگت والے لوگوں کی لاشیں پیش کی جارہی ہیں۔ انہیں حراست میں لیا جارہا ہے۔ مارا پیٹا جارہا ہے ان کا گلا گھونٹ کر قتل کیا جارہا ہے، اب ہم ان ناانصافیوں پر مزید خاموش نہیں رہ سکتے‘‘۔
آج اگر امریکی کانگریس اور عدلیہ پر دبائو نظر آرہا ہے تو اس کی پشت پر عوامی دبائو ہے۔ لہٰذا کانگریس اراکین پولیس کو دیے جانے والے فوجی ہتھیاروں کی پابندی، طاقت کے استعمال میں زیادہ سے زیادہ احتیاط برتنے اور پولیس کے بجٹ کے بارے میں مناسب فیصلے کرنے کی ضرورت پر بحث کرنے کا ارادہ کررہے ہیں۔ اس میں ہمارے عوام کے لیے بھی ایک سبق ہے اگر وہ سیکھنا چاہیں کہ عوام اپنی طاقت کو سمجھیں امریکا میں تاریخ کی درستی اور اہم شخصیات کے کردار پر بھی سوال اُٹھائے جارہے ہیں۔ وہ تمام شخصیات جو سیاہ فام لوگوں پر مظالم، نسل پرستی اور مقامی باشندوں کی نسل کشی میں ملوث ہیں ن کے مجسمے چوک چوراہوں سے گرائے جارہے ہیں۔ کرسٹوفر کولمبس کے مجسمے کئی شہروں میں مسخ کیے گئے، خاص طور سے باسٹن شہر کے مرکزی مقام پر لگے کولمبس کے مجسمے کا سرقلم کردیا گیا۔ کیونکہ کولمبس کی مہمات مقامی باشندوں کے مطابق اُن کے آبائواجداد کی نسل کشی کا باعث بنیں۔ برسٹل میں مظاہرین نے ایڈورڈ کولسن کا مجسمہ منہدم کرکے سمندر برد کردیا۔ یہ غلاموں کی تجارت کرتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے بحری جہازوں کے ذریعے 80 ہزار مردوں، عورتوں اور بچوں کو غلام بنا کر افریقا سے امریکا پہنچایا۔ حیرت تو یہ ہے کہ اس کو امریکا میں خاص طور سے اُس کے شہر میں معزز سمجھا گیا اتنا کہ اُس کا مجسمہ نمایاں جگہ لگایا گیا صرف اس لیے کہ غلاموں کی تجارت کی دولت سے اس شہر کو فائدہ حاصل ہوا۔ اسکاٹ لینڈ کے دارالحکومت ایڈنبرا میں 1823ء کے سیاست دان ہنری ڈینڈاس کا مجسمہ بھی مظاہرین کا نشانہ بنا۔ جس نے غلاموں کی تجارت کو غیر قانونی قرار دینے کے قانون کو پاس کرنے میں تاخیر کروائی، جس کے باعث غلامی اور اس کا کاروبار مزید 15 سال تک جاری رہا۔ سیاست دان ہی نہیں بادشاہ کے مجسمے بھی مظاہرین کا نشانہ بنے۔ بلجیم کے بادشاہ لیویولڈثانی پر لال رنگ کردیا گیا اور چہرے پر ایک غلاف پہنا کر لکھ دیا گیا کہ ’’میں سانس نہیں لے سکتا‘‘۔ اسی بادشاہ کے ایک اور مجسمے کو نذر آتش کردیا گیا۔ بلجیم کے دارالحکومت برسلز میں اسی بادشاہ کے ایک اور مجسمے پر ’’قاتل‘‘ لکھ دیا گیا۔ بلجیم کا یہ بادشاہ اپنے ملک پر 1865ء سے 1909ء تک حکومت کرتا رہا۔ اس کو افریقی ملک کانگو میں انتہائی بھیانک کردار کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے۔ اس نے کانگو کو ایک بیگار کیمپ بنادیا تھا۔ جہاں کی ربڑ کی تجارت سے اس نے بے انتہا دولت کمائی، وہاں جو لوگ غلامی پر مزاحمت کرتے انہیں گولی مار دی جاتی۔ شاہ لیویولڈ کا حکم تھا کہ ان لوگوں کے ہاتھ قلم کرکے جمع کیے جائیں۔ لیویولڈ کے زمانے میں کانگو میں ایک کروڑ افراد کی ہلاکت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اپنے ملک بلجیم میں اس نے انسانوں کا چڑیا گھر بنایا تھا جس میں کانگو کے سیاہ فام لوگوں کو اپنے لوگوں کی تفریح کے لیے پنجروں میں رکھا گیا تھا۔
حیرت ہے ایسے لوگوں کے مجسمے تہذیب کے علمبردار یورپ میں لگائے گئے۔ اور آج بھی کچھ لوگ انہیں ہٹانے کے خلاف ہیں… کیوں کہ بقول اُن کے ملک کی تجارتی کامیابی شاہ لیویولڈ ثانی کی مرہون منت ہے… خواہ وہ انسانوں کی تجارت کے باعث ہوں۔ اس کے علاوہ ڈھیروں نام ہیں جن کے مجسمے مظاہرین کے زیر عتاب ہیں، ان میں ’’جنرل رابرٹ لی‘‘ اور ونسٹن چرچل شامل ہیں۔ کسی مقام پر کوئی مجسمہ لگانے کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ شخص ایک عظیم انسان تھا۔ حیرت ہے ایسے ظالم نسل پرست قاتل اور انسانوں کو جانور سمجھنے والے لوگوں کے مسجمے آج 2020ء تک موجود رہے اور آج بھی یورپ، امریکا اور برطانیہ میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ان مجسموں کے انہدام کو درست نہیں سجھتے۔ اور اب تک انہیں ہیرو ہی کی طرح سمجھتے ہیں۔ یہ ہے سرمایہ دارانہ ذہنیت جو صرف سرمایے کو اہمیت دیتا ہے انسان کو نہیں۔ لہٰذا 2020ء میں مظاہرین کا مطالبہ یہی ہے کہ ’’سیاہ فاموں کی زندگیاں بھی اہم ہیں‘‘۔