اسلام آباد( نمائندہ جسارت) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے ہیں کہ ریلوے کا حال پھٹیچرہے،کل پھر ٹرین کی بوگی پٹڑی سے اْترگئی، شکر ہے کسی کی جان نہیں گئی لیکن کروڑوں کا نقصان تو ہوگیا، سمجھ نہیں آرہا محکمیکا کیا بنے گا۔ریلوے ملازمین کی مستقلی سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی،عدالت عظمیٰ نے سیکرٹری ریلوے کو آج طلب کرلیا۔ریلوے ملازمین کے وکیل محمد رمضان نے عدالت میں کہا کہ بیس بیس سال سے یہ ملازمین ریلوے میں کام کر رہے ہیں۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا یہ سارے کانٹریکٹ ملازمین تھے؟ جواب میں وکیل نے کہا کہ نہیں یہ ملازمین ڈیلی ویجز پر تھے اور ریگولر پوسٹ کا کام کررہے ہیں۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ان لوگوں کے تقرر کے لیے اشتہار دیا گیا تھا؟وکیل نے جواب میں کہا کہ نہیں ان ملازمین کے تقرر کے لیے اشتہار نہیں دیا گیاتھا، چیف جسٹس نے کہا کہ ریلوے کا حشر اسی لیے خراب ہے، ہرچیز کا کوئی طریقہ کار ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ریلوے کے اندر کوئی طریقہ کار نہیں اس لیے ریلوے کا یہ حال ہے،ہمیں کوئی ایک کاغذ دکھا دیں جس سے پتا چلے یہ ریلوے کے ملازمین ہیں۔ اس پر ملازمین کے وکیل نے کہا کہ ملازمین کے سارے دستاویزات ریلوے کے پاس جمع ہوتے ہیں،ریلوے ان لوگوں کی وجہ سے چل رہی ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ان ملازمین کو کس پروجیکٹ کے لیے تقرر کیا گیا تھا،کچھ پتا نہیں چل رہا یہ کون تقرریاں کررہا ہے، اسی لیے ریلوے کا یہ حال ہوگیا ہے۔چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ ریلوے افسران بڑی بڑی تنخواہیں لے کر بیٹھے ہیں،ایک وقت تھا کہ اس کام کے لیے بڑے تجربہ کار لوگوں کو رکھا جاتا تھا، ریلوے کا حال بالکل ہی پھٹیچر ہے۔انہوں نے کہا کہ نہ وکیل کو کچھ پتا ہے نہ ہی ریلوے حکام کو، عدالت نے سیکرٹری ریلوے کو طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت آج تک ملتوی کردی۔