امریکا میں کالوںکی تحریک

1056

امریکی ریاست منی سوٹا میں 25 مئی کو پولیس کے ہاتھوں جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے بعد اٹھنے والی احتجاجی لہر اب ایک تحریک میں بدل چکی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا کورونا کے نام پر گھروں میں بند کردی گئی تھی، امریکا کے چالیس شہروںکے حالات اس قدر خوفناک ہوگئے کہ وہاں پر کرفیو لگانا پڑا۔ صرف امریکا ہی نہیں، اس کے آفٹر شاک نیوزی لینڈ، آسٹریلیا سے لے کر پورے یورپ میں محسوس کیے گئے۔ آسٹریلیا میں تو جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے خلاف مظاہروں پر پابندی عاید کردی گئی مگر نیوزی لینڈ اور یورپ میں اس کی حمایت میں لاکھوں افراد کے مظاہرے جاری ہیں۔ جارج فلوئیڈ کی موت کے بعد اٹھنے والے احتجاجی مظاہروں کی لہر اور اس کے بعد اس کے تحریک میں تبدیل ہونے کا منظر ایسا نہیں ہے کہ اس سے صرف نظر کرلیا جائے۔ بجا طور پر اس تحریک کو دیکھنے کے بعد چند سوالات ذہن میں اٹھتے ہیں۔ سب سے پہلا سوال ہی یہی ہے کہ اس تحریک کے آرگنائزر کون ہیں، اس کے بعد دوسرا منطقی سوال یہی بنتا ہے کہ اس تحریک کے آرگنائزر چاہتے کیا ہیں۔ سامنے موجود مطالبات کی بات ہم اس لیے نہیں کرتے، کہ عمومی طور پر پس پردہ منصوبہ کچھ اور ہوتا ہے اسٹیج پر موجود مکالمے کچھ اور۔
ایک بات تو طے ہے کہ چاہے کوئی بھی تحریک ہو، اس کے لیے آرگنائزر کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ آرگنائزر کے بغیر عوام میں غم و غصہ تو ضرور ہوسکتا ہے مگر وہ کسی کے لیے بھی فائدہ مند یا
نقصاندہ نہیںہوتا تاہم اگر عوامی جذبات کی ترجمانی کے لیے کوئی آرگنائزر کود پڑے تو پھر وہ اس عوامی غم و غصہ کو طوفان بلاخیز میں تبدیل کرسکتا ہے۔ عوامی جذبات کو انتہا تک پہنچانے کے لیے یہ آرگنائزر بہت کچھ کرتے ہیں جو بلاشبہ جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔ کسی بھی تحریک کے اصل کرداروں کو جاننے کے لیے دو باتیں انتہائی اہم ہیں۔ ایک اس کے آرگنائزر اور دوسرے مذکورہ تحریک کو فنڈ فراہم کرنے والے۔ اصل اہمیت فنڈ فراہم کرنے والوں ہی کی ہوتی ہے، آرگنائزر کو ہم ایک طرح سے تنخواہ دار ملازم بھی کہہ سکتے ہیں۔ جس طرح سے کسی بھی کمپنی کا چیف ایگزیکٹو دیکھنے میں سیٹھ کی طرح ہی کام کررہا ہوتا ہے مگر ہوتا وہ بھی دیگر ملازمین کی طرح ایک تنخواہ دار ملازم ہی ہے۔
جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے بعد پولیس اور اسٹیٹ کے خلاف مظاہروں کے آرگنائزر کے طور پر Antifa کا نام آیا۔ اینٹی فا امریکا میں کسی پارٹی کا نام نہیں ہے۔ یہ دو الفاظ anti اور fascist کا مرکب ہے یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ پورا لفظ اینٹی فاشسٹ ہے جو مختصر ہو کر اینٹی فا ہوگیا ہے۔ امریکا میں اس نام کی نہ تو کوئی پارٹی ہے اور نہ ہی گروپ۔ عمومی طور پر یہ لفظ تمام ہی بائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں اور افراد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے جب ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ اینٹی فا کو دہشت گرد جماعت قرار دے دیں گے تو حقیقت کو جاننے والے افراد زیر لب مسکرا دیے۔ پہلی بات تو یہی ہے کہ قانونی طور پر غیرملکی تنظیموں یا افراد کو تو دہشت گرد قرار دیا جاسکتا ہے مگر کسی امریکی تنظیم یا فرد کو دہشت گرد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ دوسری بات یہی تھی کہ جب اینٹی فا نام کی کوئی تنظیم یا فرد کا وجود ہی نہیں ہے تو پھر کسے دہشت گرد قرار دیا جاسکتا ہے۔ اینٹی فا پر کام کرنے والا اور اس موضوع پر کتاب لکھنے والا تاریخ داں مارک برے کہتا ہے کہ اینٹی فا کو ایک ڈھیلی ڈھالی تحریک کہا جاسکتا ہے جو دائیں بازو کی انتہا پسندی کے خلاف ردعمل کے طور پر مدافعت کے طور پر وجود میںآئی۔ برے یہ بھی کہتا ہے کہ دائیں بازو کے لوگوں کے نزدیک نہ صرف اینٹی فا وجود رکھتی ہے بلکہ اس کے لیڈر بھی موجود ہیں جو وقت پڑنے پر متحرک ہوجاتے ہیں۔ اینٹی فا کے ڈانڈے سو برس پرانی تحریکوں سے بھی ملتے ہیں۔ 1930 میں اس کے کارکنوں نے ہٹلر اور مسولینی کے خلاف تحریک چلائی۔ 1933 تک جب ان پر جرمنی میں پابندی نہیں لگادی گئی، انہوں نے جرمنی میں کمیونزم کی طرف جھکاؤ رکھنے والے اینٹی فاشسٹ ایکشن گروپ کے تحت جرمنی کی سڑکوں پر ہٹلر کی نازی پارٹی کے کارکنوں سے دست بدست جنگ بھی لڑی۔ یورپ میں 80 اور 90 کی دہائی میں جب نیو نازی کے نام سے گنجے گروپ وجود میں آنے شروع ہوئے تو اینٹی فا بھی زندہ ہوگئی۔ تاہم امریکا میں ایسا کوئی گروپ نظر نہیں آتا جو ماضی قریب میں بہت متحرک ہو۔ سب سے آخری گروپ جس کا تذکرہ ملتا ہے وہ 2007 میں پورٹ لینڈ کے Rose Cityکی Antifa ہے۔
اینٹی فا کے کارکنوں کے کام کرنے کا اپنا طریقہ کار ہے۔ یہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی ہر سطح پر نشاندہی کرتے ہیں اور ان کی مزاحمت بھی کرتے ہیں حتیٰ کہ یہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے مظاہروں کے دوران ان کی جسمانی مزاحمت بھی کرتے ہیں۔ ان کا سیاہ رنگ کا مخصوص لباس ہوتا ہے اور عمومی طور پر اپنی شناخت چھپانے کے لیے ماسک یا چہرے پر رومال باندھتے ہیں۔ اینٹی فا کو سمجھنے کے بعدیہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امریکا کے ساتھ ساتھ یورپ میں مظاہرین کو کون منظم کررہا ہے۔ اب اگر ہم دوسرے سوال کا جواب جان لیں کہ اس تحریک کو فنڈز کہاں سے فراہم ہورہے ہیں تو ہمیں سمجھنے میں آسانی ہوجائے گی کہ اس کے ماسٹرز چاہتے کیا ہیں۔ اس سوال کا جواب آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔