نوازشریف کے وارنٹ جاری،زرداری کی حاضری سے استشنا کی درخواست منظور

416

اسلام آباد ،لاہور( نمائندہ جسارت،خبرایجنسیاں) احتساب عدالت نے نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے جبکہ آصف علی زرداری کی حاضری سے استثنا کی درخواست منظور کرلی۔احتساب عدالت اسلام آباد کے جج اصغر علی نے توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت کی۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور ملزم عبدالغنی مجید پیش ہوئے جبکہ نواز شریف اور آصف علی زرداری پیش نہ ہوئے۔آصف علی زرداری نے حاضری سے استثنا کی درخواست دائر کی جو منظور کرلی گئی جبکہ میاں نواز شریف کی طرف سے کوئی بھی پیش نہیں ہوا۔نیب نے یوسف رضا گیلانی اور عبدالغنی مجید کو گرفتار کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ عبدالغنی مجید اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جائے۔نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے احتساب عدالت کو بتایا کہ ملزمان نیب آرڈیننس کی سیکشن نائن اے کی ذیلی دفعہ 2، 4، 7 اور 12 کے تحت کرپشن کے مرتکب ہوئے۔آصف زرداری اور نواز شریف نے یوسف رضا گیلانی سے غیر قانونی طور پر گاڑیاں حاصل کیں، آصف زرداری نے گاڑیوں کی صرف 15 فیصد ادائیگی جعلی اکاو¿نٹس کے ذریعے کی۔
آصف زرداری کو بطور صدر لیبیا اور یو اے ای سے بھی گاڑیاں تحفے میں ملیں اور انہوں نے گاڑیاں توشہ خانہ میں جمع کرانے کے بجائے خود استعمال کیں۔ نیب پراسیکوٹر نے مزید بتایاکہ نواز شریف 2008 میں کسی بھی عہدے پر نہیں تھے، نوازشریف کو 2008 میں بغیر کوئی درخواست دیے توشہ خانے سے گاڑی دی گئی، گاڑیوں کی ادائیگی عبدالغنی مجید نے جعلی اکاو¿نٹس سے کی، انور مجید نے انصاری شوگر ملز کے اکاو¿نٹس کا استعمال کر کے 2 کروڑ سے زائد کی غیر قانونی ٹرانزیکشنز کیں، اس کے علاوہ انور مجید نے آصف زرداری کے اکاو¿نٹس میں بھی 9.2 ملین روپے ٹرانسفر کیے جب کہ عبدالغنی مجید نے 37 ملین روپے کسٹم کولیکٹر اسلام آباد کو ٹرانسفر کیے۔عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے اور آصف علی زرداری کی حاضری سے استثنا کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں آئندہ سماعت پر حاضری یقینی بنانے کا حکم دیا۔ عدالت نے آصف زرداری سمیت تمام ملزمان کو 11 جون کو پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔علاوہ ازیںقومی احتساب بیورو (نیب)لاہور کی جانب سے آمدن سے زائد اثاثہ جات اور مبینہ منی لانڈرنگ کے کیس میں سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کیخلاف جاری تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانے کےلیے 2 جون کوذتی حیثیت میں طلب کر رکھا ہے ۔اس حوالے سے نیب لاہور کی جانب سے شہباز شریف کو گزشتہ پیشی پر نیب کی ایس او پیز کے تحت باقاعدہ مفصل سوالنامہ بھی فراہم کیا گیا تھا اور ان کی خواہش کے مطابق انہیں مناسب وقت بھی فراہم کیا گیا تاکہ اس دوران وہ مطلوبہ مکمل ریکارڈ کی دستیابی ممکن بنا سکیں۔نیب لاہور کی تحقیقاتی ٹیم نے اس دوران کورونا وبا کے پیش نظر پہلے سے مزید بہتر انتظامات بھی مکمل کر لیے ہیں جن میں سماجی فاصلہ (SOCIAL Distancing), سینی ٹائزرز (Sanitizer )کی فراہمی کے علاوہ ٹیبل پر گلاس وال (Glass Wall) کی تنصیب شامل ہیں اسکے علاوہ سوال جواب کے دوران CIT ممبران کےلیے ماسک کے استعمال کی پابندی پر بھی عمل درآمد کیا جائیگا۔ علاوہ ازیں نیب لاہور کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر تمام انٹرویو رومز (Interview Rooms) کو جراثیم کش اسپرے سے باقاعدہ صاف بھی کیا جا رہا ہے تاکہ ان رومز میں پیش ہونے والے افراد اور نیب کے افسران کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔دریں اثناءقومی احتساب بیورو (نیب )سکھر اور ملتان ریجن سمیت ملک بھر میں نیب مقدمات کے 150 سے زائد ملزمان کو مفرور قرار دیا گیا ہے۔ نیب کی دستاویزات کے مطابق نیب سکھر نے 74ملزمان کو مفرور قرارد ے رکھا ہے جن میں 19خواتین مفرور شامل ہیں جبکہ نیب ملتان نے 30ملزمان کو مفرور قراردے رکھا ہے ۔نیب صوبہ سندھ کے سکھر ریجن میں مفرور قرار دیے گئے سب سے زیادہ38 افراد کا تعلق ضلع نوشہرو فیروز سے ہے جن میں 19خواتین اور 55مردملزمان شامل ہیں ، ان خواتین پر غیر قانونی طور پر پنشن حاصل کرنے کا الزام ہے ۔ سکھر ریجن کے مفرور افراد کی فہرست میں ضلع لاڑکانہ کے تین، ضلع شکارپور کے 15،ضلع کشمور کے 2، جیکب آباد کے 5، گھوٹکی کے تین، سکھر کے 4، شہداد کوٹ ایک، نواب شاہ ایک اور خیر پور کے ایک ملزم کا نام شامل ہے۔ ان مفرور ملزمان میں اساتذہ سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ملزمان شامل ہیں ۔ نیب ملتان کی جانب سے 30افراد کو مفرور قراردیا گیا جن میں ضلع پاکپتن سے ایک ، بہاولپور 4 ، ملتان 8، لاہور 3،خانیوال2، مظفر گڑھ 1، ٹوبہ تک سنگھ ایک، لودھراں 2، وہاڑی ایک، کراچی ایک ، بہاولنگرایک، رحیم یارخان کے تین ، نوشہروفیروز سے ایک اور ڈیرہ غازیخان کے2 ملزمان شامل ہیں ۔نیب ذرائع کے مطابق ملک بھر میں 150سے زائد نیب کے مفرور ملزمان موجود ہیں تاہم ترجمان نیب نے رابطہ کرنے پربتایا کہ مفرور ملزمان کی حتمی تعداد وہ متعلقہ معلومات حاصل کرنے کے بعد بتا سکیں گے کیونکہ یہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔