مئی ٹیپو سلطان کی شہادت کا مہینہ ہے۔ آج ٹیپو سلطان کی شہادت کو دو سو سال سے زیادہ گزر گئے۔ مئی 1799ء میں آزادی اور اسلامی اخوت کا یہ آفتاب صرف 48 سال کی عمر میں غروب ہوگیا۔ سلطان ٹیپو نے برصغیر ہند و پاک پر غیر ملکی اقتدار روکنے کے لیے اپنی پوری زندگی مجاہدانہ انداز میں گزاری۔ وطن کو غیر کی غلامی سے بچانے کے لیے اپنا ہر آرام و چین بھلا دیا۔ اپنی زندگی میں اپنے بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے قربان ہوتے دیکھا اور آخر کار خود بھی مردانہ وار لڑتے ہوئے شہید ہوگیا لیکن برصغیر کے لوگوں نے اور خصوصاً مسلمانوں نے اپنے اس بہادر مجاہد کے ساتھ اچھا برتائو نہیں کیا۔ انہوں نے نہ صرف اس کو بھلادیا بلکہ ہر اُس اولعزم مجاہد کو بھلادیا جس نے انگریز کے اقتدار کو روکنے کے لیے نہ صرف خود کو بلکہ اپنے پورے کے پورے خاندانوں کو آزادی کے لیے کٹادیا تھا۔ لیکن اپنا سر نہ جھکایا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اپنے نوجوانوں کو اپنے آزادی کے مجاہدوں کی زندگی اور ان کی کوششوں سے روشناس کراتے تاکہ نوجوان آزادی کی قدر وقیمت جانتے اور اپنے مجاہدوں کی طرح اس کی حفاظت کا سلیقہ اور قرینہ سیکھتے۔ اس کے بجائے حکومتوں نے آہستہ آہستہ تعلیمی نصاب سے ان کے ناموں کو نکالنا شروع کردیا اور اب تو نوبت مقدس ہستیوں کے اسباب کو نکالنے تک آپہنچی ہے۔ آج ہمارے نوجوان نہ سراج الدولہ کو جانتے ہیں، نہ شاہ اسماعیل شہید اور سید احمد شہید کو پہچانتے ہیں اور نہ مولانا قاسم نانوتوی اور ان کے ساتھی علما اکرام کو جانتے ہیں۔ یہ سب اس لیے کیا گیا کہ محکومی اور غلامی ہمارے مقتدر لوگوں کے دلوں میں اُتر گئی اور دماغوں میں بس گئی۔ محکومی اور غلامی کو دلوں میں بسانے کی وجہ دولت و اقتدار کا نشہ ہے جو اعصاب کو افیون کی طرح اس کا عادی بنادیتا ہے۔ لیکن ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے، یقینا آج بھی ایسے نوجوانوں کی کمی نہیں جن کے سینوں میں غیرت اور رگوں میں گرم لہو ان کو آزادی کے لیے سینہ سپر ہونے اور ہر قربانی دینے کے لیے تیار رکھتا ہے۔ ٹیپو سلطان آج دو سو برس سے زیادہ عرصے سے میسور کی مٹی میں محو خواب ہیں۔ لیکن آزادی کے لیے ان کی لگن جدوجہد اور کارنامے قوم کی رگوں میں جوش و جذبہ اور حمیت و غیرت جگانے کے لیے زبردست قوت رکھتے ہیں۔ علامہ اقبال جاوید نامہ میں ٹیپو سلطان شہید سے اپنی خیالی ملاقات کا حال قلمبند کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
آں شہیدان محبت را امام
آبروئے ہند و چین و روم و شام
نامش از خورشید و مہ تابند تر
خاکِ قبرش از من و تو زندہ تر
عشق رازے بود بر صحرا نہاد
تو ندانی جاں چہ مشتاقانہ داد
ازنگاہ خواجہؐ بدر و حسنین
فقرِ سلطاں وارثِ جذب حسینؓ
رفعت سلطاں زیں سرائے ہفت روز
نوبت او در دکن باقی ہنوز
یعنی اے اقبال! سلطان ٹیپو شہید‘ شہیدان محبت کا امام تھا اور مشرقی ممالک کی آبرو (آزادی) اُس کی ذات سے وابستہ تھی۔ آج دنیا میں اُس کا نام سورج اور چاند سے بھی زیادہ روشن ہے اور اُس کی قبر کی مٹی آج بھی ہندوستان کے رسمی مسلمانوں سے کہیں زیادہ زندگی کے آثار اپنے اندر رکھتی ہے۔
عشق ایک راز تھا لیکن سلطان ٹیپو نے اس راز کو عالم آشکارا کردیا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اے اقبال! کیا تو نہیں جانتا کہ اُس نے کس سپاہیانہ آن بان کے ساتھ اپنی جان دی کہ اس کے شدید مخالفین کو بھی اس بات کا اعتراف ہے۔ اگر مسلمان سلطان کی شہادت کو سیدنا علی کی نگاہ سے دیکھیں تو اُن کو صاف نظر آسکتا ہے کہ سلطان شہید کا فقر درحقیقت جذبہ حسین کا وارث تھا۔ اگرچہ سلطان کی وفات کو ایک عرصہ گزر چکا ہے لیکن دکن میں آج بھی اس کے نام کی نوبت بج رہی ہے‘‘۔
سلطان ٹیپو نے جس والہانہ انداز میں آزادی کے لیے موت کو گلے لگایا اس نے اُسے آزادی کے پرستاروں کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے زندہ کردیا۔ وہ آزادی کا علمبردار تھا جب تک زندہ رہا آزادی کی فضا میں سانس لیتا تھا اور آخر کار غلامی پر موت کو ترجیح دی اور شہادت کا تاج پہن کر امر ہوگیا۔ سلطان کے آخری وقت کے بارے میں کہ اس نے کیسے جان دی؟ تاریخ میں قلم بند ہے کہ ’’جس دن سے وہ قلعہ میں محصور ہوا تھا اس دن سے اس نے اپنے محل میں اقامت ترک کردی تھی اور سپاہیوں کی طرح ایک خیمے میں رہتا تھا۔ 4 مئی 1799ء دن کے ایک بجے وہ فصیل سے اترا کہ دوپہر کا کھانا کھائے۔ ابھی دو لقمے ہی لیے تھے کہ چند غدار افسر خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ’’جہاں پناہ دشمن نے دیوار میں راستہ بنالیا اور اس کی فوج اندر داخل ہونا چاہتی ہے اور حضور! انگریز بڑے شریف اور عالیٰ حوصلہ ہیں آپ ہتھیار ڈال دیں ہمیں یقین ہے کہ وہ آپ کے ساتھ شریفانہ برتائو کریں گے‘‘۔ سلطان کا چہرہ غداروں کی یہ گفتگو سن کر سرخ ہوگیا اور انہوں نے تلوار کے قبضے پر ہاتھ رکھ کر وہ زندہ جاوید الفاظ ادا کیے۔
’’غداروں! شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہوتی ہے‘‘۔
سلطان گھوڑے پر سوار ہو کر اس جگہ پہنچا جہاں دست بدست لڑائی ہورہی تھی۔ اگرچہ اس دوران پنڈلی اور بازو میں دو گولیاں پیوست ہوگئی تھیں لیکن جب تک کھڑے ہونے کی تاب تھی۔ برابر جواں مردی سے شجاعت کے جوہر دکھاتے رہے لیکن بالآخر آزادی کا یہ لازوال کردار جس سے انگریز لرزہ براندام رہتے تھے موت کی آغوش میں سو گیا۔ اقبال میسو جاتے ہیں ٹیپو سلطان کی قبر پر حاضر ہوتے ہیں تو تصور میں ان سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ ایک موقع پر سلطان اقبال سے سوال کرتے ہیں۔
زائرِ شہر و دیارم بودہ!
چشمہ خود را بر مزارم سودہ!
اے شناسائے حدودِ کائنات!
در دکن دیدے آثارِ حیات!
اے اقبال تونے میرے ملک میسور کی سیاحت بھی کی ہے اور خود میرے مزار کی زیارت بھی کی ہے اور تو شناسائے حدود کائنات بھی ہے مجھے بتا تو سہی دکن میں تجھے زندگی کے کچھ آثار نظر آئے؟؟
اقبال اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں
تخم اشکے ریختم اندر دکن
لالہ ہا روید ز خاکِ آں چمن
اورِ کادیری مدام اندر سفر
دیدہ ام در جانِ او شورِ دِگر
’’یعنی اے سلطان دی شان! آپ اطمینان رکھیں آپ کی زبردست قربانیاں رائیگاں ہیں جائیں گی۔ کائنات کا نظام اس قدر پیچیدہ ہے کہ سطحی نظر رکھنے والا کچھ نہیں سمجھ سکتا (آپ نے 1799ء میں اپنی بیش قیمت جان آزادی وطن پر نثار کی تھی اب اس واقعے کو 132 سال ہوچکے ہیں) لیکن ابھی نتیجہ نہیں مرتب ہوا لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ یہ کبھی نہیں ہوگا۔ نتائج صدیوں کے بعد بھی ظاہر ہوتے ہیں‘‘۔ اور اقبال کی بات درست ثابت ہوئی اور آزادی کا سورج ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے طلوع ہوا۔ آج ٹیپو سلطان کی موت کو دو سو سال سے زیادہ گزر گئے لیکن اس کی زندگی اور موت دونوں مسلمان نوجوانوں کے لیے متحد ہو کر آزادی کی حفاظت کرنے کا پیغام دیتی ہے۔ بقول اختر شیرانی
عشق و آزادی بہار زیست کا سامان ہے
عشق میری جان آزادی مرا ایمان ہے
عشق پہ کر دوں فدا میں اپنی ساری زندگی
لیکن آزادی پہ میرا عشق بھی قربان ہے