کسی بھی قوم کو قابو کرنے کے لیے اگر کوئی نسخہ کارگر ہے تو وہ دہشت کا تسلط ہے۔ دہشت ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعے ایک کتا بھیڑوں کے پورے ریوڑ کو ہانک سکتا ہے اور ایک شیر ہرنوں کی پوری ڈار میں سے اپنے پسندیدہ ہرن کا شکار کرسکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر چڑیاں متحد ہوجائیں تو وہ زندہ شیر کی کھال کھینچ سکتی ہیں اور شیر بے بسی کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتا۔ خوف اور دہشت کے تسلسط کو ہم بھینسوں کی مثال سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ جنگلی نر بھینسوں کو جب خطرے کا احساس ہوتا ہے تو وہ مادہ بھینسوں اور بچوں کو بیچ میں جمع کرکے ایک دائرہ اس طرح سے بنا کر کھڑے ہوجاتے ہیں کہ ان کی دُمیں اندر کی طرف اور منہ بیرونی دائرے کی طرف ہوتے ہیں۔ اب شیروں کا گروہ کسی بھی طرف سے حملہ آور ہوجائے، یہ اسے اپنے نوکیلے سینگوں پر رکھ لیتے ہیں، یوں شیروں کا گروہ ناکام ہوکر واپس لوٹ جاتا ہے۔ انقلاب فرانس سے لے کر آج تک آنے والے کسی بھی انقلاب کو دیکھ لیں، دہشت کے تسلط کی پالیسی پر کامیابی سے عمل کیا گیا اور یوں پورے پورے ملکوں پر با آسانی قبضہ ہوگیا۔ کراچی ہی کو دیکھ لیں کہ 80 اور 90 کی دہائی میں سرکاری سرپرستی میں متحدہ قومی موومنٹ نے کس طرح سے دہشت کا تسلط قائم کیا تھا، ڈرل مشین سے تین تین سو سوراخ ایک لاش میں ملتے تھے، لاشوں کی کھال اتری ہوئی الگ ملتی تھی اور یوں وہ بلا شرکت و غیرے شہر کے مالک بن بیٹھے تھے۔ اسی فرنچائز پر لیاری میں امن کمیٹی نے بھی کام کیا تھا اور وہاں بھی لوگ ان کے خوف سے لرزاں رہتے تھے۔
انسان سمیت کسی بھی جاندار کے لیے سب سے بڑا خوف موت ہے۔ اسلام نے موت کا خوف مسلمانوں کے دل سے نکال دیا تھا بلکہ شہادت اس قدر محبوب کردی تھی کہ ہر شخص کی یہ آرزو بن گئی تھی تو پھر دنیا میں ان کے سامنے کوئی بھی نہیں کھڑا رہ سکا۔ شوق شہادت اب بھی مسلمانوں کے اندر موجود ہے جس سے دشمن آج بھی لرزیدہ رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن کا پہلا وار ہمیشہ سے جہاد پر رہا ہے۔ مسلمانوں کے دشمنوں کو معلوم ہے کہ جہاد کا شوق ختم ہوگیا تو پھر سے یہ مسلمان دیگر اقوام کی طرح کیڑے مکوڑے ہی ہوں گے۔ ایک مرتبہ دہشت کا ماحول اگر پیدا کردیا جائے تو پھر سارے کام انتہائی آسان ہوجاتے ہیں۔ کورونا میں بھی یہی آزمودہ نسخہ آزمایا گیا۔ دہشت کو پھیلانے میں اہم ترین کردار الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا نے سرانجام دیا۔ چوبیس گھنٹوں کا ائر ٹائم سارے ہی الیکٹرونک میڈیا سے خرید لیا گیا اور اب خریداروں کی مرضی اور ہدایات کے مطابق دنیا بھر میں کورونا نشریات شروع کردی گئیں۔ کسی بھی میڈیا کو خریدنے کے لیے آج کے دور میں بلیک منی کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اسے منہ مانگے داموں میں اشتہارات ملنے شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ اشتہارات ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے بھی ملتے ہیں اور بینکوں کی طرف سے بھی۔ یہ رقم کسی campaign کی صورت میں بھی ادا کی جاتی ہے۔ کورونا کے ساتھ ہی الیکٹرونک میڈیا اور بڑے اخبارات میں آنے والے اشتہارات پر ایک نظر ڈالیں تو بہت کچھ واضح ہوجائے گا۔ ہاں ذرا ڈاکٹروں کو ہدیہ تحسین پیش کرنے کی عالمی campaign پر خاص غور کیجیے گا۔ اس سے اور بھی بہت کچھ واضح ہوگا۔ رہا سوشل میڈیا تو اس کے لیے دنیا بھر میں باقاعدہ trolling factories کام کررہی ہیں، جن میں ایک وقت میں اپنی فیلڈ میں ماہر ہزاروں افراد کام کررہے ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ کوئی کلپ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیا جاتا ہے تو عوام پہلے ہی سے فارورڈ کرنے کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ ان کلپس کو بار بار اپ لوڈ کرکے لوگوں کے ذہنوں میں تازہ رکھا جاتا ہے۔
اب دوبارہ سے اپنے ذہن کو جنوری میں لے جائیے۔ موقع ملے تو 20 جنوری سے اخبارات کا دوبارہ سے مطالعہ شروع کریں یا بڑے ٹی وی چینلوں کے خبرنامےarchive سے سننا شروع کریں تو آپ پر بہت سارے انکشافات ہوں گے۔ اب اگر کسی شہر کے بارے میں لمحے لمحے میں بریکنگ آنے لگے کہ وہاں پر ایک اور شخص اسٹریٹ کرائم کا شکار ہوگیا، ایک جگہ اور چوری ہوگئی، ایک اور معصوم بچہ زیادتی کا شکار ہوگیا، ایک اور لڑکی کو اس کے سسرال والوں نے تشدد کا نشانہ بنایا، ایک اور موٹر سائیکل چوری، ایک اور گاڑی چوری وغیرہ وغیرہ تو کسی بھی شخص کا اس شہر کے بارے میں کیا تاثر ہوگا، اس بارے میں ہر شخص بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔ کچھ یہی صورتحال شعوری طور پر کورونا کے بارے میں پیدا کی گئی۔ آپ یہ دیکھیے کہ کہیں پر بھی مستند خبر نہیں ہے۔ اگر کورونا کے بارے میں خبریں اتنی ہی اہم ہیں تو ہر ٹی وی چینل کی ڈی ایس این جی تمام آئسولیشن مراکز کے باہر کیوں نہیں کھڑی ہیں، یہ رپورٹر مرنے والوں کے اعزہ اور بیماروں کے اہل خانہ کے انٹرویو کیوں نہیں دکھاتے کہ انہیں کیا ہوا ہے اور اب کیا صورتحال ہے۔ جن مراکز میں کورونا کے مریضوں کا علاج ہورہا ہے، وہاں کے ڈاکٹروں کے انٹرویو کیوں نہیں دکھاتے کہ کتنے مریضوں کی حالت خطرناک ہے اور اصل صورتحال کیا ہے۔ حکومت نے جتنے آئسولیشن مراکز اور اسپتال کورونا کے علاج کے لیے مخصوص کیے ہیں، وہاں کی رپورٹ کیوں نہیں دکھاتے کہ کس مرکز میں کتنے مریض ہیں اور انہیں کیا سہولتیں میسر ہیں۔
کراچی سمیت کسی بھی شہر کی آپ کو کہیں بھی مستند خبر نہیں ملے گی۔ روز ٹاک شوز ہوتے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ کسی بھی ٹاک شو میں کوئی ماہر بیٹھ کر روز اٹھنے والے اہم سوالات کے جواب دے۔ دلائل کے ساتھ بتائے کہ تشخیصی کٹ کے بارے میں جو شبہات ہیں، وہ کتنے درست اور کتنے غلط ہیں، بتائے کہ کورونا کے وائرس کی تشخیص ٹیسٹ میں direct ہوتی ہے یا indirect بتائے کہ کس اسپتال کو کورونا کے نام پر اب تک کتنا فنڈ دیا گیا ہے اور کس مرکز پر کتنا خرچ کیا جارہا ہے۔ آپ غور کریں گے تو پتا چلے گا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ بس کوئی وزیر مشیر دھمکی آمیز انداز میں کہے گا کہ سب اپنے اپنے کابکوں میں بند ہوجائیں ورنہ سڑکوں پر لاشوں کے ڈھیر لگ جائیں گے۔
(جاری ہے)