لاک ڈاؤن اور اسپینش فلو

870

پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ فلو کے زبردست پھیلنے کی بناء پر ہوا۔ یہ فلو اتنا شدید تھا کہ اس وقت دنیا کی پونے دو ارب کی آبادی میں سے اس نے پچاس کروڑ افراد کو متاثر کیا تھا۔ ان پچاس کروڑ متاثرین میں سے پانچ کروڑ افراد موت کا شکار ہوئے تھے۔ یعنی دنیا میں تقریباً ہر چوتھا فرد اس بیماری کا شکار ہوا تھا اور بیمار افراد میں سے ہر دسواں فرد زندگی کی بازی ہار گیا تھا۔ اس فلو کو اسپینش فلو کا نام اس لیے دیا گیا تھا کہ اسپین اس وقت جنگ عظیم کا حصہ نہیں تھا، اس لیے خبریں وہیں سے آرہی تھیں، امریکا اور یورپ کے باقی ممالک جنگ کا حصہ تھے اور وہ خبروں کو چھپا رہے تھے۔ بیماری کے مہلک ہونے کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنگ کی وجہ سے اتنے افراد موت کا شکار نہیں ہوئے تھے جتنے بیماری کی وجہ سے ہوگئے تھے۔ ایک صدی قبل جس وقت اس بیماری نے حملہ کیا تھا، اس وقت تک فلو کی ویکسین ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ فلو کی ویکسین 1940 میں ایجاد ہوئی۔ تاہم جنگ عظیم سے قبل امریکا میں چیچک، ریبیز، ٹائیفائڈ، ہیضہ اور طاعون کی ویکسین تیار کی جاچکی تھیں۔ اسپینش فلو کا آغاز امریکا کی ریاست کنساس سے ہوا اور اس وبا کا تعلق چیچک اور ٹائیفائیڈ کی ویکسین امریکا بھر میں لگانے سے جوڑا جاتا ہے۔ یہ عجیب سی بات ہے کہ اس طرح کی جو بھی بیماری سامنے آئے، اس کا الزام کسی نہ کسی جانور پر لگا دیا جاتا ہے۔ اسپینش فلو کا الزام بھی گھوڑوں پر لگا دیا گیا۔
اسپینش فلو دنیا سے پانچ کروڑ افراد کی بھینٹ لے کر رخصت ہوگیا اور اس کی ویکسین تقریباً بائیس برس بعد 1940 میں تیار کی گئی۔ نہ تو بیماری کے وقت دنیا میں اس طرح کا لاک ڈاؤن کیا گیا جو اس وقت کورونا کے نام پر جاری ہے اور نہ یہ کہا گیا کہ جب تک اس کی ویکسین تیار نہیں ہوجاتی، دنیا اب بند رہے گی اور لوگ اب قید رہیں گے۔ ایک بار پھر اعادہ۔ ویکسین کسی بھی مرض کی دوا یا علاج treatment نہیں ہے بلکہ یہ ایک احتیاط prevention ہے۔ مرض کے دوران یا بعد ویکسین کسی کام کی نہیں ہوتی بلکہ یہ مرض کی شدت میں اضافہ کا موجب ہوسکتی ہے۔ ویکسین کے کام کرنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ جس بیماری سے حفاظت مطلوب ہو، اس بیماری کے جراثیم محدود تعداد میں انسانی جسم میں داخل کیے جاتے ہیں۔ انسانی جسم قدرتی حفاظتی نظام کو کام میں لاتے ہوئے ان دشمن جراثیموں کے خلاف مدافعتی نظام کو وجود میں لاتا ہے۔ اس طرح سے جب کبھی مذکورہ جراثیم انسان پر حملہ آور ہوں تو پہلے سے موجود مدافعتی نظام انہیں ناکارہ بنادیتا ہے اور یوں انسان جراثیم کا شکار ہونے کے باوجود بیمار ہونے سے محفوظ رہتا ہے۔ اگر پہلے سے بیمار شخص میں ویکسین کے ذریعے وہی جراثیم داخل کردیے جائیں تو ان جراثیم کی تعداد مزید بڑھ جائے گی اور وہ زیادہ ہلاکت خیز ہوجائیں گے۔
فلو کی ویکسین بنے ہوئے بھی 80 برس ہوچکے ہیں مگر اب بھی فلو کی ہلاکت خیزی کہیں سے کم نہیں ہے۔ اب بھی ہر برس ساڑھے چھ لاکھ افراد فلو کی وجہ سے موت کا شکار ہوتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ٹائیفائیڈ کی بھی ہے۔ کورونا اور فلو ایک تو نہیں ہیں مگر ایک دوسرے سے مماثل ضرور ہیں۔ ایک فرد سے دوسرے فرد کو لگنے کا طریقہ کار دونوںمیں ایک ہی ہے۔ ابھی تک کورونا نے فلو کے ایک بھی سنگ میل کو عبور نہیں کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان سمیت دنیا بھر سے خبریں موصول ہورہی ہیں کہ دیگر امراض سے مرنے والوں کو زبردستی کورونا کے کھاتے میں ڈال کر اسے زیادہ ڈراؤنا بنا کر پیش کیا گیا۔ حکومت سندھ کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا بیان 23 مارچ 2020 کے جنگ اخبار میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ سندھ میں ایسے افراد جن کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے ان کی 90فی صد تعداد میں بیماری کی علامات موجود نہیں یعنی ان افراد کو بخار، کھانسی اور سانس لینے میں دشواری جیسے مسائل کا سامنا نہیں ہے۔ چونکہ ان افراد کا ٹیسٹ مثبت آگیا ہے، اس لیے ان کا شمار کورونا کے مریضوں میں کیا جارہا ہے۔
سوالات تو پیدا ہوتے ہیں کہ اسپینش فلو نے دنیا کی ایک چوتھائی آبادی ہی کو اپنی لپیٹ میں کیوں لیا، اس نے دنیا کی پوری آبادی کو اپنی لپیٹ میں کیوں نہیں لیا، 1918 کے بعد یہ جرثومہ ازخود کیسے ختم ہوگیا اور پچاس سال بعد اس نے دوبارہ کیوں سر اٹھایا۔ covid 19 اپنی طرز کا پہلا جرثومہ نہیں ہے، اس کے خاندان کے پہلے فرد SARS اور دوسرے فرد MERS پہلے ہی دنیا پر حملہ آور ہوچکے ہیں، یہ دونوں جرثومے ازخود کیسے ختم ہوگئے۔ عالمی ادارہ صحت جس طرح سے بتاتا ہے کہ اگر ویکسین کی تیاری سے قبل لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی تو ncovid 19 پوری دنیا کی تباہی ہر منتج ہوگا تو SARS اور MERS کے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہوا۔ دنیا بھر کی آبادی کو متاثر کیے بغیر یہ دونوں جرثومے اپنی موت آپ کیوں مرگئے۔ وائرس ایک پیرا سائٹ ہے جو کسی زندہ فرد کے بغیر باہر زندہ نہیں رہ سکتا تو پھر یہ گرمیوں میں اتنے تیز درجہ حرارت میں کیسے باہر زندہ ہے کہ کہا جارہا ہے کہ کسی چیز کو ہاتھ نہ لگائیں کہ کورونا وائرس 48 گھنٹے تک لکڑی، گلاس اور دیگر سطحوں پر زندہ رہ سکتا ہے۔ سینی ٹائزر اینٹی وائرل نہیں بلکہ اینٹی بیکٹیریل ہیں تو پھر ان کا استعمال کیوں۔ جس طرح سے ماسک کا استعمال کیا جارہا ہے وہی خطرناک ہے۔ جو ہاتھ ہر جگہ پر لگایا جاتا ہے، وہی بار بار ماسک پر بھی لگایا جاتا ہے۔ چونکہ ماسک ناک اور منہ سے قریب ہوتا ہے اس لیے بیکٹیریا اور دیگر جراثیم جو ماسک پر جمع ہوجاتے ہیں، ان سے ماسک لگانے والا زیادہ خطرے میں ہوتا ہے۔ ویسے بھی عمومی طور پر ماسک کا استعمال علامتی طور پر کیا جاتا ہے، یعنی اکثر ناک کھلی ہوتی ہے اور بعض اوقات تو یہ ٹھوڑی پر ہی ہوتا ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے اپنی پٹھو حکومتوں اور ایجنٹ میڈیا کے ذریعے لوگوں میں دو چیزوں کا خوف بٹھادیا ہے۔ پہلی بات یہ کہ کورونا ایک ایسی بیماری ہے جس میں جو مبتلا ہوا، وہ دردناک موت کا شکار ہوتا ہے۔ کورونا کے شکار مریض کو اچھوت میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ جس کو کورونا تشخیص کردیا جائے، اس سے لوگ اس طرح دور بھاگتے ہیں جیسے وہ چلتا پھرتا ٹائم بم ہے۔ اس کی تدفین اس طرح سے کی جاتی ہے جیسے کسی بارود سے بھرے سلنڈر کو زمین میں دفن کیا جاتا ہے۔ ان مرحومین کے لیے الگ قبرستان مخصوص کیے گئے ہیں اور ان میتوں کو دور سے چھ فٹ گہرے گڑھے میں پھینک دیا جاتا ہے اور بغیر سلیب رکھے مٹی ڈال دی جاتی ہے۔ اس ماحول کی وجہ سے لوگ خوفزدہ ہیں حالانکہ کسی بھی میت سے کوئی بھی جراثیم اس وقت تک کسی کو نہیں لگتا جب تک اس کی رطوبت کسی فرد کو براہ راست نہ لگ جائے اور وہ اس کو اپنے جسم میں نہ اتار لے۔
دوسری بات یہ ذہن میں بٹھادی گئی ہے کہ سماجی فاصلہ برقرار رکھنا ہے۔ سماجی فاصلے کے بارے میں پہلے بھی میں لکھ چکا ہوں کہ یہ جسمانی فاصلہ نہیں ہے بلکہ سماجی فاصلہ ہے یعنی سماجی رابطہ بھی نہیں رکھنا ہے۔ اب حکم جاری کردیا گیا ہے کہ جب تک ویکسین نہ آجائے، اس وقت تک بتائے گئے ان ہی طریقہ کار پر عمل کرنا ہوگا۔ بتائے گئے طریقہ کار دیکھ کر ہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتنے مضحکہ خیز ہیں۔ یعنی شام پانچ بجے کے بعد اگر گھر سے نکلے تو کورونا چمٹ جائے گا۔ جمعہ، سنیچر اور اتوار کو کاروبار کھلا تو کورونا نہیں چھوڑے گا، کچھ سڑکوں کو بند کردیا گیا ہے اور کچھ کو رکاوٹیں لگا کر تنگ کردیا گیا ہے، اگر یہ سب نہ کیا گیا تو کورونا کسی کو نہیں چھوڑے گا۔ اشیائے خور ونوش کی دکانوں پر ہجوم تو کچھ نہیں مگر فرنیچر کی دکان، جس پر اکا دکا گاہک آتے ہیں، کھولیں تو کورونا پھیل جائے گا۔ شہر کے اندر جس طرح سے آئیں اور جائیں، دوسرے شہر کے لیے ٹرانسپورٹ کھولی تو کورونا کسی کو نہیں چھوڑے گا، وغیرہ وغیرہ۔
بات سمجھ لینے کی ہے کہ مسئلہ کورونا نہیں ہے بلکہ کورونا کی آڑ میں اہداف کا حصول ہے۔ یہ اہداف کیا ہیں، ان کے بارے میں کئی آرٹیکل لکھ چکا ہوں، انہیں میری ویب سائٹ پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازش سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔