شاہد خاقان نیب میں پیش۔ چیئرمین مجھے دوبارہ گرفتار کروائیں گے‘ لیگی رہنما

132

اسلام آباد(آن لائن)سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ میں 2000ء سے نیب کا گاہک ہوں اور اب انہوں نے ٹیکس کے بارے میں پوچھا جو میں چاہتا تھا کہ نیب پوچھے،نیب والے راضی نہیں ہو تے ،چیئرمین نیب مجھے دوبارہ گرفتار کرالیں گے ۔جمعرات کو شاہد خاقان عباسی ایل این جی ریفرنس کے معاملے میں نیب کی کمبائنڈ انوسٹی گیشن ٹیم کے سامنے پیش ہوئے۔ذرائع نے بتایا کہ نیب نے نئے شواہد کی روشنی میں (ن) لیگی رہنما شاہد خاقان عباسی سے تحقیقات شروع کر دی ہیں اور ایل این جی معاہدوں کے دوران ہونے والی ٹرانزیکشنز سے متعلق سوالات پوچھے گئے۔نیب کی کمبائنڈ انوسٹی گیشن ٹیم کے سامنے( ن) لیگی رہنما نے ٹرانزیکشنز سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے بتایا کہ ایل این جی معاہدہ قوائد کے مطابق کیا۔نیب ٹیم نے سوال کیا کہ آپ کے اکاؤنٹ میں اربوں روپوں کی اچانک ٹرانزیکشنز کیسے ہوئی؟نیب نے شاہد خاقان عباسی کو ایک اور ضمنی سوالنامہ دیدیا ہے اور سابق وزیراعظم کوتحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ تحریری جواب کی روشنی میں شاہد خاقان کی دوبارہ طلبی کا فیصلہ کیا جائے گا۔ بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئیشاہد خاقان عباسی نے بتایا کہ نیب نے سوالنامہ دیا ہے جس کا تحریری جواب دیا جائے گا، نیب نے اثاثوں سے متعلق سوالات کیے ہیں،20برس سے سوالات ،جوابات اور پیشیوں کاسلسلہ جاری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ نیب سیاسی طور پر استعمال ہورہا ہے، نیب نے ہمیں ایک اور سوالنامہ دیا ہے جس میں پوچھا ہے کہ ٹیکس ادا کرتے ہیں یا نہیں، میرے بچوں سے متعلق سوالات پوچھے ہیں، خوشی ہوئی کہ نیب نے ٹیکس سے متعلق بھی پوچھ ہی لیا۔ان کہنا تھا کہ نیب نے اب ہمارے بیٹوں اور گھر والوں کو بھی نوٹسز بھیجنے شروع کردیے ہیں، جب بھی اسمبلی میں یا کسی چینل پربولیں تو نیب بلالیتا ہے اور گھر بیٹھے رہیں تو نیب خاموش رہتا ہے۔شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ عوام کو نہیں پتا شہزاد اکبر کا ماضی کیا ہے، ان کی صورت میں عمران خان نے الزامات کا ایک ادارہ کھول رکھا ہے، اگر تحقیقات ہی کرنی ہیں تو لاہور میں ایک گھر بنا، کس کا بنا؟ کتنے میں بنا؟ تحقیقات کریں۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ چیئرمین نیب اجلاس بلائیں گے اور پھر مجھے گرفتار کرا دیں گے۔انہوں نے کہا کہ نیب قانون کا مسودہ حکومت کو دے دیا ہے جس میں نیب قانون میں موجود خامیوں کو دور کیا گیا ہے، ہم احتساب کو نہیں خامیوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔