کورونا کے نام پر کھیلے جانے والے کھیل سے اب پرتیں اترنی شروع ہوگئی ہیں۔ حقائق سامنے آنے پر وہ لوگ جو نادانی میں اس کھیل کا حصہ بن گئے تھے، خاموشی سے سائیڈ لائن ہوگئے ہیں تاہم وہ لوگ جن کے مفادات وابستہ ہیں، وہ اب بھی ڈھٹائی کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، ہر چیز روز روشن کی طرح عیاں ہوتی جارہی ہے کہ کورونا کے نام پر کھیلے جانے والے کھیل کے کیا اہداف تھے اور وہ کس طرح سے پورے کیے جارہے ہیں۔ کینیڈا کی حکومت نے خود اعتراف کرلیا ہے کہ کینیڈا میں کورونا کے نام پر ہونے والی ہلاکتوں کا 80 فی صد ان بوڑھے افراد پر مشتمل تھا جو اولڈ ہومز میں رہائش پزیر تھے۔ اسی طرح برطانیہ سے بھی اب یہ خبریں آگئی ہیں کہ برطانیہ میں بھی کورونا سے مرنے والے افراد کی اکثریت کا تعلق عمر رسیدہ گروپ سے تھا۔ برطانیہ میں تو مزید ظلم یہ کیا گیا کہ ان عمر رسیدہ افراد میں کورونا کی تشخیص کرتے ہی انہیں اسپتالوں سے کیئر ہومز روانہ کردیا گیا جہاں پر نرسنگ یا میڈیکل کی کوئی سہولت دستیاب نہیں تھی اور یوں یہ افراد وہاں پر سسک سسک کر جان سے چلے گئے۔ ایک طرح سے ان افراد کو باقاعدہ قتل کیا گیا۔ ایسی اطلاعات سب سے پہلے اٹلی سے موصول ہوئی تھیں کہ وہاں پر عمر رسیدہ افراد کو کورونا کے نام پر باقاعدہ قتل کیا جارہا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ روز انتہائی افسوس کے ساتھ اطلاع دیتے ہیں کہ سندھ میں کورونا کے کیسوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اتنے ٹیسٹ کیے گئے اور اس میں سے اتنے مثبت آئے۔ وزیر اعلیٰ کا ایک کمال تو یہ ہے کہ پہلے دن سے ان کے نزدیک جتنے بھی ٹیسٹ مثبت آئے ہیں، وہ ان سب کو مجموعی طور پر بتاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا کہنا ہے کہ سندھ میں اب تک 13 ہزار 341 افراد کورونا سے متاثر ہیں مگر اس عرصے میں کورونا کے نام پر 234 افراد مر بھی چکے ہیں اور اب تک 2 ہزار 835 افراد کو صحت یابی کے سرٹیفکٹ بھی جاری کیے جاچکے ہیں۔ اس طرح سے ان کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سندھ میں 10 ہزار 272 مریض بچتے ہیں۔ اسی طرح 741 افراد میں کورونا کے ٹیسٹ مثبت آئے تو 606 مریض صحت یاب بھی ہوئے، اس طرح سے کورونا کے مریضوں میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں صرف 135 افراد کا اضافہ ہوا۔ اگر حکومت کی دلیل مان لی جائے تو دنیا کی آبادی میں اضافہ ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک پیدا ہونے والوں کو گن کر کیا جانا چاہیے اور یوں اب تک دنیا کی آبادی کھربوں میں ہونی چاہیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ٹیسٹنگ کٹس کہیں سے بھی قابل اعتبار نہیں ہیں۔ جن چینی کمپنیوں کی ٹیسٹنگ کٹس کو پاکستان میں استعمال کیا جارہا ہے، انہیں دنیا کی بیش تر حکومتوں نے ناکارہ قرار دے کر واپس کردیا ہے۔ پاکستان میں ٹیسٹنگ کی کیا صورتحال ہے، اس کا اندازہ 23 مارچ کے جنگ میں انصار عباسی کی خبر سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس خبر کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان اور مشیر قانون مرتضیٰ وہاب نے انکشاف کیا ہے کہ صوبائی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ایسے افراد جن کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے ان کی 90فی صد تعداد میں بیماری کی علامات موجود نہیں یعنی وہ Asymptomatic ہیں۔ خبر کے مطابق اس کا مطلب ہے کہ ان افراد کو بخار، کھانسی اور سانس لینے میں دشواری جیسے مسائل کا سامنا نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ان افراد کو وائرس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ حکومت جس طرح سے زبردستی بغیر کسی علامت کے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر ٹیسٹ کررہی ہے، اس کے نتیجے میں کس طرح کے مریض سامنے آرہے ہیں۔
کورونا کے مریض گننے کے علاوہ وزیر اعلیٰ سندھ ہوں یا وفاقی حکومت، انہوں نے ابھی تک کورونا سے نمٹنے کے لیے کوئی معقول حکمت عملی اختیار کرنے پر توجہ ہی نہیں دی۔ سرکار سے فنڈز حاصل کرنے والے ڈاکٹروں کا بھی ابھی تک سارا زور حکومت کے بیانیے کو دہرانے پر ہے کہ اگر لاک ڈاؤن ختم کیا گیا یا دوبارہ سے سخت لاک ڈاؤن نہ کیا گیا تو ہر طرف لاشوں کے ڈھیر لگے ہوں گے۔ ڈاکٹروں کی ان ایسوسی ایشنوں کو چاہیے تھا کہ سرکار کو اس سلسلے میں ایک مربوط منصوبہ بنا کر دیتے۔
بہتر تھا کہ کسی ایک بڑے سرکاری اسپتال کی عمارت کو کورونا کے لیے مخصوص کردیا جاتا اور وہیں پر کورونا کے سارے مریضوں کا علاج کیا جاتا۔ چونکہ اس عمارت میں موجود ڈاکٹر اور نرسنگ اسٹاف صرف کورونا کا علاج کررہا ہوتا، اس لیے انہیں اس میں مہارت بھی حاصل ہوجاتی۔ مذکورہ اسپتال کے ماہرین دنیا کے بڑے اسپتالوں کے ماہرین کے ساتھ رابطے میں ہوتے اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے۔ اب تو یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ کورونا کے اتنے مریض مرض سے نہیں مرے جتنے مرض کو غلط طریقے سے ہینڈل کرنے سے مرے۔ وینٹی لیٹر پر جانے والے مریضوں کے پھیپھڑے اس لیے پھٹ گئے کہ انہیں ہائی پریشر پر انکیوبیٹ کیا گیا تھا۔ ان کے دل اور جگر میں جانے والی شریانوں میں خون اس لیے جم گیا کہ انہیں کوئی اینٹی بایوٹک دی ہی نہیں گئی۔ اب کہا جارہا ہے کہ ایسے مریضوں کو پہلے دن ہی سے broad spectrum اینٹی بایوٹک کا استعمال کروایا جائے۔ مگر پاکستان میں ابھی تک ان تجربات سے کوئی فائدہ اس لیے اٹھایا نہیں جاسکا ہے کہ ڈاکٹر یا ان کی ایسوسی ایشنیں اپنا کام کرنے کے بجائے سیاست میں مصروف ہیں۔ کورونا کے مذکورہ خصوصی اسپتال میں کام کرنے والے طبی و غیر طبی عملے کو خصوصی پرکشش وظیفہ الگ سے دیا جاتا تو کراچی ایک ماڈل کے طور پر سامنے آسکتا تھا۔ اس کے برخلاف یہ کیا گیا کہ جگہ جگہ گھوسٹ قرنطینہ مراکز قائم کردیے گئے جن کے نام پر اربوں روپے روز کہیں بلیک ہول میں جارہے ہیں۔
اسپتالوں کے کردار کو ہم 21 مارچ کے جنگ کی مین لیڈ کی روشنی میں جانچ سکتے ہیں کہ حکومت کے احکامات پر کس طرح سے ڈاکٹر اور اسپتال ہر مریض کو کورونا کا مریض ڈیکلیئر کررہے ہیں۔ اس خبر کے مطابق وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے بتایا کہ سرکاری شعبے کے اسپتال نے اپنی روزانہ کی رپورٹ میں 1874 مشتبہ افراد کی نشاندہی کی ہے ان میں سے 21 افراد کا ٹیسٹ لیا گیا۔ پرائیویٹ اسپتالوں نے 702 مشتبہ افراد کی فہرست دی ہے ان میں سے 5 افراد کے ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔ اس خبر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے سرکاری دباؤ پر اسپتال سارے ہی داخل مریضوں کو کورونا کے مشتبہ مریضوں کی فہرست میں ڈال دیتے ہیں، حالانکہ ان میں سے چند ہی ایسے ہوتے ہیں، جن کے ٹیسٹ کیے جاسکتے ہیں۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔