سن 3 ہجری 17 رمضان المبارک بدر کا میدان اور تاریخ اسلام کا عظیم الشان اور یادگار دن ہے جب اسلام اور کفر کےدرمیان پہلی فیصلہ کن جنگ لڑی گئی جس میں کفار قریش کے طاقت کا گھمنڈ خاک میں ملنے کےساتھ اللہ کےمٹھی بھر نام لیواؤں کو وہ ابدی طاقت اور رشکِ زمانہ غلبہ نصیب ہوا جس پر آج تک مسلمان فخر کا اظہار کرتے ہیں۔
کفار مکہ نے17 سال تک رسول محمد اللہ صلی علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے ان کا خیال تھا کہ مُٹھی بھر یہ بے سرو سامان ‘مسلمان ‘ بھلا ان کی جنگی طاقت کےسامنے کیسے ٹھہر سکیں لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔اللہ کی خاص فتح ونصرت سے 313 مسلمانوں نے اپنے سے 3 گنا بڑےلشکر کو مات دی اور معنوی طاقت کے ساتھ خاک چاٹنے پرمجبور کردیا۔
معرکہ بدر کی اس جنگ نے مسلمانوں کو سبق دیا کہ جنگیں قومیں لڑا کرتی ہیں، مسلمان اگرچہ اس وقت انگلیوں پرگنے جا سکتے تھے لیکن وہ ایک قوم تھے۔آج دنیا میں 1.5 ارب مسلمان ہیں لیکن وہ ظالم کا شکار ہیں چونکہ ہم ایک قوم نہیں ہیں یہی وجہ ہے کے مغرب سے دشمن کی یلغار ہے جبکہ اپنوں میں غداریاں عروج پر ہیں ۔
جنگ بدر اسلام کے فلسفہ جہاد نقطہ آغاز ہے، یہ وہ اولین معرکہ ہےجس میں شہادت کےمرتبے پر فائز ہونےوالے جنت میں داخل نگے۔ قرآنِ پاک کی کئی آیات اور احادیث مبارکہ غزوہ بدر میں حصہ لینے والوں کی عظمت پر دلالت کرتی ہیں۔
غزوہ بدر کو 1400 سال گزر چکے ہیں لیکن اس کی یاد مسلمانوں کے ایمان و روح کو تازہ کردیتی ہے۔ صدیوں بعد آج بھی مقام بدر کفار مکہ شکست فاش اور مسلمانوں کی فتح و کامرانی کی گواہی دیتا ہے۔