ٹھٹھہ (نمائندہ جسارت) ٹھٹھہ اور ضلع ملیر میں غیر معیاری ڈیزل اور پیٹرول کی اسمگلنگ اور فروخت نے منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کرلی ہے، محکمہ ریونیو اور پولیس کی کالی بھیڑوں کی سرپرستی میں دونوں اضلاع میں غیر قانونی طور پر غیر معیاری ڈیزل اور پیٹرول کا کاروبار عروج پر چلنے لگا، میڈیا انویسٹیگیشن رپورٹ کے مطابق ضلع ملیر کے علاقے ملیر سٹی سے گھگھر پھاٹک تک اور گھگھر پھاٹک سے گھارو سے لے کر کوٹری تک مافیاؤں کی چین ملی ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں ملنے والی معلومات کے مطابق غیر قانونی تیل کے کاروبار میں گولارچی سے کراچی جانے والے کروڈ آئل ٹینکر سے پولیس سرپرستی میں گجو، گھارو کی سڑک کے سائیڈ میں تیل چوری کر کی سوزوکیاں بھری جاتی ہیں جس سے کراچی کے مختلف علاقوں میں قائم غیر قانونی ریفائنریز میں پکا کر غیر معیاری ڈیزل بنایا جاتا ہے، وہی ڈیزل بذریعہ سوزوکیاں گھارو کے اردگرد قائم نوزل پر فروخت کیا جاتا ہے، رند ریسٹورنٹ نزد گھگھر پھاٹک کراچی میں کروڈ آئل کا باقاعدہ ذخیرہ ڈپو بھی قائم کیا گیا ہے جہاں ٹینکروں سے تیل چوری کیا جاتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ذخیرہ اندوز مافیاؤں کو پولیس کی مکمل سرپرستی حاصل ہے اور وہاں کے مقامی صحافی کالی بھیڑوں کے ہاتھ بھی ملوث بتائے جارہے ہیں۔ گھارو کی قومی شاہراہ پر غیر قانونی طور پر قائم نوزل پمپس پر شہریوں کو باقاعدہ طور پر ڈیزل، پیٹرول فروخت کیا جارہا ہے، ان نوزل پر کسی بھی تصدیق شدہ کمپنی کا بورڈ بھی نہیں لگا ہوا اور ان کے قائم ہونے کی قانونی حیثیت بھی کچھ الگ ہے، ان کی قانونی حیثیت زرعی مقاصد کے استعمال ہونے والی ضلعی ڈپٹی کمشنر کی عارضی این او سی ہوتی ہے جس پر وہ مخصوص اسٹاک رکھ سکتے ہیں مگر شہریوں کو فروخت نہیں کرسکتے۔ اطلاعات کے مطابق ان نوزل پمپس پر کروڈ آئل سے بنایا ہوا کچا تیل، ایرانی مکس تیل ہوتا ہے جو ضلعی انتظامیہ کی کالی بھیڑوں کو مقامی پولیس کی آشیر واد سے شہریوں کو فروخت کررہے ہیں۔ گھارو اور اردگرد کے غیر قانونی نوزل پمپس پر علاقائی اسسٹنٹ کمشنر، مختارکار کئی بار چھاپا مار کر سیل کرچکے مگر بعد میں سیاسی اثرو رسوخ پر معاملہ لین دین پر طے پالیا جاتا ہے۔ یاد رہے کچھ عرصہ پہلے سابق اسسٹنٹ کمشنر ٹھٹھہ ایاز احمد جھنڈان نے جھمپیر میں تین پیٹرول پمپس کو غیر قانونی ہونے کے اعتراف پر سیل کردیا تھا، جس کے بعد قانونی چارہ جوئی سے بھاری رقم وصول کرکے دوبارہ چلنے کی اجازت دے دی۔ مزید یہ کہ مین نیشنل ہائی وے گجو میں تعمیر ہونے والا پیٹرول پمپ بھی سیل کیا گیا تھا مگر وہ بھی لین دین کے بعد عوام کو لوٹنے میں مصروف ہے، اس پمپ پر اوگرا قوانین کے مطابق کسی بھی تصدیق شدہ کمپنی کا بورڈ آویزاں نہیں ہے، جس سے تیل کے معیار کا پتا چل سکے۔ صرف یہ ہی نہیں ٹھٹھہ میں ایرانی تیل کی کھپت بھی بڑے پیمانے پر دکھائی دے رہی ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ دو ماہ قبل مکلی، ٹھٹھہ، دھابیجی پولیس نے ایرانی ڈیزل سے بھرے ہوئے ہزاروں لیٹر والے ٹینکرز پکڑے تھے جن کو کسٹم ٹیم کے حوالے کیا گیا۔ انتہائی باخبر ذرائع سے مزید معلومات ملی ہیں کہ اس کالے دھندے میں مقامی پولیس اور کسٹم حکام بھی شامل ہیں۔ ایرانی تیل جو ایرانی سرحد سے انتہائی سستے داموں سے بذریعہ بلوچستان سے کراچی پہنچتا ہے اور کراچی سے ٹھٹھہ میں اس کی بڑی کھپت ہوتی ہے۔ دوسری جانب ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ٹھٹھہ کی ساحلی پٹی سے کشتیوں کے ذریعے مچھلی کے شکار والوں میں مافیائیں گھس گئی ہیں، جو سمندر کے ذریعے ایران سے ایرانی تیل ٹھٹھہ کی ساحلی پٹی پر پہنچاتے ہیں، جہاں سے پیٹرول پمپ مالکان سے آرڈر لے کر پمپس تک پہنچایا جاتا ہے جو اصلی تیل سے بھی زیادہ داموں پر بیچا جاتا ہے کیونکہ سرکاری طور پر مقرر کردہ ریٹ سے ٹھٹھہ کے پیٹرول پمپس پر دو روپے مہنگا بیچا جاتا ہے جن کی آمدنی سے مقامی پولیس اور کسٹم کو اپنا حصہ جاتا ہے۔ تیل کے غیر قانونی دھندوں میں بڑی بڑی بااثر سیاسی مافیائیں شامل ہیں جو بغیر کسی خوف کے شہریوں کو لوٹ رہے ہیں۔ اوگرا قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور کالے دھندے میں ملوث مافیائوں نے شہریوں کی جیبیں خالی کردی ہیں۔ گاڑیوں کے انجن وقت سے پہلے تباہ ہوجاتے ہیں، ایسے انکشاف کے بعد کراچی اور ٹھٹھہ کے عوامی اور سماجی حلقوں میں غصے کی لہر چھا گئی ہے۔ عوامی اور سماجی حلقوں نے اوگرا حکام، وفاقی وزیر پیٹرولیم، آئی جی سندھ سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا ہے۔