بی جے پی کی ہار لیکن نظریہ کی جیت

483

بھارت کے شہر گجرات میں بڑے پیمانے پر مسلم کش فسادات 2002ء میں ہوئے تھے۔ اس میں ہزاروں مسلمان مارے گئے تھے۔ ان فسادات میں پولیس فسادیوں کا ساتھ دے رہی تھی۔ انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ ان فسادات کے مقدمات درج ہی نہیں کیے گئے اور بعد میں درج بھی کیے گئے تو ان کی تفتیش نہیں کی گئی۔ اگرچند افراد گرفتار کیے بھی گئے تو انہیں ضمانت دے دی گئی۔ یاد رہے کہ ان میں ’’بابو بجرنگی‘‘ بھی شامل تھا جس نے خود اعتراف کیا تھا کہ کس طرح 2002ء کے فسادات کے دوران ایک حاملہ مسلم خاتون کا بچہ پیٹ چیر کر نکالا اور ترشول میں پیوست کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ گجرات میں 1947ء کا وقت پوری سفاکی کے ساتھ دوہرایا گیا اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ آج کے بھارت کے وزیراعظم مودی ہی تھے۔ پھر فروری 2020ء میں دہلی میں فسادات کے خلاف پرتشدد واقعات ہوئے۔ یہ واقعات مودی کے شہریت کے متنازع قانون کے باعث ہوئے۔ اس دوران مسلمانوں کی پوری پوری مارکیٹوں کو جلا دیا گیا۔ اگر پچھلے پانچ سال ہی کا جائزہ لیا جائے تو بھارت میں مسلم کش فسادات ہزاروں کی تعداد میں ہوچکے ہیں، لیکن دنیا نے سوائے مذمت کے کچھ نہ کیا، وہ بھی چند ممالک نے۔ لہٰذا آج اگر امریکا نے بھارت کو مذہبی آزادی کے مدِنظر تشویش والے ممالک میں شامل کیا ہے تو یہ اہم ہے۔
امریکی کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی نے بھارت پر سخت پابندیوں کی سفارش کی ہے کہ بھارتی حکومت، اداروں اور دیگر حکام پر سفارتی اور انتظامی پابندیاں عاید کی جائیں۔ گجرات فسادات کے بعد مودی پر پابندیاں عاید کی گئی تھیں لیکن وزیراعظم بننے کے بعد تمام پابندیاں ہٹالی گئیں۔ اور ٹرمپ نے گجرات میں ایک جلسے میں شرکت کی۔ بہرحال گجرات کے 2002ء کے فسادات کے بعد یہ پہلی بار ہوا کہ امریکی کمیشن کو بھارت میں حکومت مذہبی بنیادوں پر تفریق اور آزادی کی خلاف ورزی کرتی نظر آئی۔ حقیقت یہ ہے کہ 2019ء کے عام انتخابات میں مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کو بھاری اکثریت سے کامیابی نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف تشدد کی کھلی چھوٹ دے دی جس کا مظاہرہ دو ماہ قبل فروری میں دہلی میں دیکھنے میں آیا۔ ان فسادات کے دوران بھارت کے وزیرداخلہ امیت شاہ نے مسلمانوں کو ’’دیمک‘‘ قرار دیا اور شہریت بل کے مخالفین سے سخت بدلہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’انہیں بریانی نہیں گولی دی جائے‘‘۔ بی جے پی کی مسلمانوں بلکہ اقلیت سے نفرت کا یہ اظہار واضح ہے۔ بی جے پی کا ایک بڑا حلقہ کورونا وائرس کی وبا کے لیے مسلمانوں کو ذمے دار ٹھیرانے کی کوشش کررہا ہے۔ کانگریس نے اس کے لیے بی جے پی کو نفرت اور تعصب کا وائرس پھیلانے کا ذمے دار قرار دیا ہے۔ دہلی میں ایک واقعہ بی جے پی کی فروری 2020ء میں انتخابات میں شکست ہے۔ عام آدمی پارٹی نے 2015ء کی طرح 2020ء میں بھی دہلی کی اسمبلی میں کامیابی حاصل کرلی۔ انہوں نے 2012ء میں عام آدمی پارٹی بنائی تھی۔ اور دو ہزار تیرہ میں دہلی اسمبلی کے انتخابات جیت لیے اور وزیراعلیٰ بن گئے۔ 2015ء میں جب دوبارہ انتخابات ہوئے تو عام آدمی پارٹی کو 70میں سے 67 نشستیں ملیں۔ اور
اب 5 سال بعد 2020ء میں عام آدمی پارٹی ایک بار پھر جیت چکی ہے۔ اس کی جیت کا باعث ایک تو عام آدمی پارٹی کا شاندار کام ہے۔ انہوں نے صحت اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں بہت کام کیا۔ عوام میں اُن کی ساکھ بہتر ہوئی اور وہ باآسانی الیکشن جیت گئے۔ بی جے پی پچھلے 22 سال سے دہلی میں حکومت نہیں بنا سکی ہے اس کی وجہ ہندو انتہا پسندی ہے اور اقلیت کے لیے اس کا پُرتشدد رویہ ہے۔ بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کے نتائج کھل کر سامنے آرہے ہیں اگرچہ 2019 میں ہونے والے الیکشن بھی نتائج کے لحاظ سے متنازع تھے کسی کو بھی بی جے پی کی جیت کی امید نہیں تھی خود بی جے پی کو بھی اتنی بڑی جیت کی امید نہیں تھی۔ کہا جاتا ہے کہ 2019ء میں عام انتخابات میں بی جے پی نے ووٹ گننے کی مشینوں میں دھاندلی کی۔ اس سب کے باوجود فروری میں عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کی الیکشن مہم میں واضح فرق تھا۔ عام آدمی پارٹی اپنے کام کے ذریعے عوام میں مقبول ہوئی اس کے مقابلے میں بی جے پی نے گلی گلی اور سڑک سڑک مودی کی تصاویر لگا ڈالیں۔ انہوں نے تعصب کی بنیاد پر الیکشن مہم چلائی۔ یہ الیکشن اس وقت ہوئے جب پورے ملک میں شہریت قانون کے خلاف آوازیں اُٹھائی جارہی تھیں۔ احتجاج ہورہے تھے، بھارت کی شہریت کو دین مذہب کے حساب سے طے کیا جارہا تھا۔ یہ واضح طور پر مسلمانوں کے خلاف اقدام تھا۔ بار بار یہ بات باور کرائی گئی کہ اس اقدام سے ہندو کو فائدہ ہوگا۔ لہٰذا اگرچہ دہلی میں مودی کی بی جے پی ہار گئی ہے لیکن نظریے کی بنیاد پر جیت گئی ہے۔ وہ نظریہ یہ ہے کہ اگر کوئی سیاست میں قدم جمانا چاہتا ہے تو وہ مسلمانوں کی برابر کی شہریت اور سیاسی حقوق پر بات نہیں کرسکتا اور نہ ہی اُن کے اوپر ہونے والے مظالم اور درندگی کے خلاف آواز اُٹھا سکتا ہے۔ شہریت کے بل کے پاس ہوتے ہی دہلی اور دوسری شہروں میں احتجاج شروع ہوگیا۔ یہ احتجاج کچی آبادی سے لے کر یونیورسٹی تک ہوا۔ بی جے پی نے بھارتی عوام کو اس سے ڈرایا کہ دیکھو یہ مسلمان کیسے جمع ہوگئے ہیں۔ انڈیا میں (اسلاموفوبیا) اسلام کا ڈر ویسے ہی موجود ہے مگر دہلی میں الیکشن مہم میں اس کو خوب اُبھارا گیا۔ بی جے پی کے پارلیمنٹ کی رکن ’’پرویش ورما‘‘ اس حد تک آگے بڑھ گئیں کہ انہوں نے شاہین باغ کے لوگوں کو قاتل اور غنڈے بنادیا ان کے اصل الفاظ کچھ یوں تھے۔
’’یہ وہ لوگ ہیں جو آپ کے گھروں میں گھس جائیں گے اور آپ کی ماں بہنوں کی عزت لوٹ کر انہیں مار ڈالیں گے۔ آج آپ کے پاس ایک موقع ہے۔ مودی اور امت شاہ آپ کو بار بار بچانے نہیں آئیں گے‘‘۔
کبھی بی جے پی کے لیڈروں نے شاہین باغ کے احتجاجیوں کو پاکستان سے ملادیا اور اس بات کو پاکستان اور انڈیا کا معاملہ بنادیا۔ جب یونیورسٹی کا معاملہ ہوا تو عام پارٹی کے ’’کیجریوال‘‘ کچھ عرصے تو خاموش رہے پھر جب ان سے اس احتجاج کے بارے میں پوچھا گیا تو اُن کا جواب تھا کہ اگر دہلی کی پولیس اُن کے ہاتھ میں ہوتی تو وہ شاہین باغ کی سڑک کو دو گھنٹوں میں خالی کرالیتے۔ الیکشن میں اپنی جیت کے فوری بعد انہوں نے ہندو بھجنگ گائے انہوں نے ثابت کیا کہ وہ کٹر ہندو ہیں اور وہ بی جے پی کی بنائی گئی حدود کو پار نہیں کریں گے۔ اس الیکشن نے یہ ثابت کیا کہ انڈیا ایک ایسے دور میں داخل ہوچکا ہے جس میں انڈین شہریت اور سیاست میں قدم جمانا اس بات پر منحصر ہے کہ آپ ہندو ہوں اور اگر سیاست کرنا ہے تو ان اصولوں پر قائم رہنا ہوگا جو مودی نے تعصب کے ساتھ قائم کی ہیں۔
آزادی کے 73 سال بعد بھی مسلمان انڈیا میں اپنی شہریت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ مودی کی سیاست ثابت کرتی ہے کہ مسلمان سیاسی طور پر کتنے کمزور ہیں۔ اس قانون کے بعد تو وہ نظر ہی نہیں آئیں گے۔ شہریت کے خلاف مسلمانوں کا احتجاج آخری کوشش کے طور پر نظر آتا ہے کہ مسلمان اپنی عزت بچالیں اس سے پہلے کہ انہیں دوسرے درجے کا شہری یا اس سے بھی بدتر مقام پر پہنچادیا جائے۔ لوگ عموماً الیکشن میں کسی پارٹی کو ووٹ دیتے ہوئے یہ ذہن میں رکھتے ہیں کہ اُس پارٹی سے انہیں کیا کیا فوائد ملیں گے۔ جب کہ انڈیا کا مسلمان ووٹ اس لیے دیتا ہے کہ ان کی ماں بہن بچ جائیں۔ عام آدمی پارٹی نے مسلمانوں کے مسائل سے صرف نظر کیا لیکن دہلی کے مسلمانوں نے انہیں ووٹ دیا اس لیے کہ انہوں نے بی جے پی کی طرح انہیں برسرعام بُرا بھلا نہیں کہا۔ اس الیکشن سے یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے کہ ہندو متعصبانہ سوچ نہیں رکھتے کیوں کہ یہ تو ایک بھول ہوگی۔ حال ہی میں انڈیا میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق ہر پانچ ہندوئوں میں سے چار نے مودی سرکار اور اس کی پالیسیوں کو پسند کیا ہے۔ لہٰذا مودی سرکار دہلی کے الیکشن میں ہار گئی ہے مگر ان کا نظریہ جیت گیا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے لیکن کیا انڈیا میں اُن کی دور رس نگاہیں مسلمانوں کے اس مستقبل کو دیکھ رہی تھیں؟۔