عدالت عظمیٰ نے سوال اٹھایا ہے کہ کورونا متاثرین کے لیے آنے والی غیر ملکی امداد کہاں خرچ ہو رہی ہے۔ اسی قسم کے سوالات چیف جسٹس پاکستان نے چند روز قبل بھی اٹھائے تھے کہ کسی چیز میں شفافیت نظر نہیں آرہی۔ سارے کام کاغذوں پر ہو رہے ہیں۔ آڈٹ ہو گا تو سب سامنے آئے گا۔ لگتا ہے وفاق اور صوبائی حکومتیں عوام کے خلاف سازش کر رہی ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے درست توجہ دلائی ہے کہ انا اور ضد سے حکومتی معاملات نہیں چلتے، کورونا پر یکساں پالیسی اختیار نہ کی تو عبوری حکم جاری کیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ وفاق میں بیٹھے لوگوں کے ذاتی عناد کو قرار دیا۔ البتہ چیف جسٹس نے ایک اور معنی خیز بات بھی کہی ہے کہ حکمران جس شعبے سے ڈرتے ہیں اسے کام کرنے دیتے ہیں۔ تاجروں کو کاروبار کی اجازت نہیں، مساجد کھول دی گئیں کیا اس سے کورونا نہیں پھیلے گا۔ چیف جسٹس نے کورونا سیاست کے حوالے سے دراصل حکمرانوں کو آئینہ دکھا دیا ہے۔ کوئی ادارہ درست کام نہیں کر رہا ہے اس لیے اعداد و شمار میں بھی گھپلے ہو رہے ہیں۔ کورونا مریضوں کا ڈیٹا بھی درست نہیں۔ انہوں نے جس چیز کی نشاندہی کی ہے وہی اصل مسئلہ ہے کہ صوبہ وفاق کو ٹیکس دینے والا کاروبار کیسے روک سکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ صوبے نے تو یہ کاروبار روک رکھا ہے۔ یہ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں کہ کیسے روک سکتا ہے۔ عدالت عبوری یا تفصیلی حکم جاری کرے۔ سیاست یہی ہے کہ کراچی میں وہ سارا کاروبار روک دیا گیا ہے جس سے وفاق کو ٹیکس مل سکتا تھا۔ اسی طرح کراچی کے لوگوں کو چھوٹا بڑا اور درمیانی کاروبار بند ہے۔ اسے لسانی یا علاقائی تعصب کہا جائے یا نہیں لیکن نتیجہ یہی نکل رہا ہے کہ کراچی کا دبایا جا رہا ہے اور سندھ کے حکمران طبقے کا سارا کاروبار چل رہا ہے۔ صوبے نے وفاق کو ٹیکس دینے والا کاروبار روک رکھا ہے جس کے نتیجے میں وفاق کو کم ٹیکس ملے گا پھر آنے والے مہینوں میں فنڈز کے لیے وفاق کی جان عذاب میں کر دی جائے گی۔ یوں وفاق کو نیچا دکھانے کا موقع ہاتھ آئے گا اور فنڈز کی عدم دستیابی کا سارا الزام وفاق پر ڈال دیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ سارے کام کاغذوں میں ہیں کہیں شفافیت نہیں، آڈٹ رپورٹ آئے گی تو سب سامنے آجائے گا۔ لیکن جناب چیف جسٹس صاحب اگر سب سامنے آگیا تو بھی کیا ہوگا۔ آٹا چینی چوروں کے بارے میں ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں چوروں کی نشاندہی ہوئی۔ پھر فارنزک رپورٹ کا بہانہ آگیا، اس کے بعد 25 اپریل کو مزید دو ہفتے کی مہلت دے دی گئی، پھر دو دن بعد تین ہفتے کی مہلت دے دی گئی۔ ایک ہفتہ گزرنے کے بعد تحقیقاتی کمیشن کے دو ارکان ایک ایک کرکے کورونا کا شکار ہو گئے یا ان کا ٹیسٹ مثبت آگیا اس طرح کورونا نے مزید مدد کی۔ اب آٹا چینی چوروں کے بارے میں رپورٹ مزید تاخیر کا شکار ہو جائے گی۔ بات یہاں بھی نہیں رکی ہے بلکہ اپنے چوروں کو تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ سابق ادوار میں کی جانے والی بھرتیوں کی تفصیلات طلب کر لی گئیں یعنی دوسروں کے چوروں کو پکڑا جائے گا۔ اپنے والوں کو رعایتیں دی جائیں گی۔ چیف جسٹس درست فرماتے ہیں کہ سارے کام کاغذوں میں ہو رہے ہیں۔ وہ محض ریمارکس کی حد تک نہ پوچھیں کہ کورونا فنٖڈز کہاں خرچ ہو رہے ہیں بلکہ وفاق اور صوبوں کے ذمے داروں کو طلب کرکے ان سے ٹھوس حساب لیا جائے۔ جہاں تک یکساں پالیسی اختیار کرنے کی بات ہے اس میں بہت تاخیر ہو چکی ہے لیکن پھر بھی مزید تباہی سے بچنے کے لیے دو چار دن کے اندر اندر فیصلے کرنے ہوں گے۔ اگر عدالت عظمیٰ نے کورونا سے متعلق نوٹس لے ہی لیا ہے اور وفاق اور صوبوں کی جانب سے بدانتظامی اور سیاست کی نشاندہی بھی کردی ہے تو اب عدالت ہی وفاق اور صوبوں کو ہم آہنگی پیدا کرنے پر مجبور کرے۔ چیف جسٹس کی یہ بات بڑی معنی خیز ہے کہ مساجد کھول دی گئیں۔ پتا نہیں یہ جملہ اعتراض کے طور پر کہا ہے یا وہ حقیقتاً یہی سمجھتے ہیں کہ مساجد کھولنے سے کورونا پھیلے گا۔ کورونا جس کو لگتا ہے اس کو لگ کر رہے گا یہ وائرس کمزور اور پہلے سے بیمار لوگوں پر وار کر رہا ہے۔ سماجی فاصلے پر صرف مساجد میں زور ہے۔ بنکوں میں روزانہ چھوٹے سے کمرے میں بیک وقت عملے اور صارفین کو ملا کر پچاس پچاس افراد موجود ہوتے ہیں۔ صارفین کی کرسیاں بھی ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہوتی ہیں۔ اسپتالوں میں اور فارمیسی میں اس سے بھی زیادہ برا حال ہے۔ احساس پروگرام کی رقم اور راشن کی تقسیم میں تو کسی ایس او پی کا احساس نہیں کیا جاتا۔ اس کے علاوہ یوں کہا جائے کہ سارے کام ہو رہے ہیں۔ خود پولیس والے دس دس کی ٹولیوں میں ایک دوسرے کے قریب بیٹھے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس کو تو یہ کہنا چاہیے تھا کہ جس شعبے سے نہیں ڈرتے اس میں جمعہ کی نماز پر پابندی لگا دی گئی۔ عین نماز کے وقت لاک ڈائون سخت کیا جاتا ہے۔ اگر تمام شعبوں میں یکساں پابندیاں ہوتیں تو شاید مساجد کے حوالے سے اس طرح نہیں سوچا جاتا۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں لاک ڈائون کی ضرورت اس کی مدت وغیرہ کے بارے میں بھی یکسو نہیں ہیں یا پھر انہیں کہیں اور سے ہدایات مل رہی ہیں۔ عدالت عظمیٰ وفاق اور صوبوں کو پابند کرے کہ جلد از جلد پورے ملک کے لیے یکساں پالیسی نافذ کریں، دونوں طرف بے انتہا تضادات ہیں۔