مئی ٹیپو سلطان کی شہادت کا مہینہ ہے

960

مئی کا مہینہ شہیدان محبت کے امام، حریت کے پروانے ’’سلطان فتح علی ٹیپو‘‘ کی شہادت کا مہینہ ہے۔ جس نے غیر ملکی اقتدار کو روکنے کے لیے اپنی پوری زندگی مجاہدانہ سرگرمیوں میں بسر کی۔ وطن کو غیر کی غلامی سے بچانے کے لیے اپنا آرام چین بھلا دیا اور اپنی زندگی، اپنے بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے قربان کردیا اور آخر کار خود بھی مردانہ وار لڑتا ہوا شہید ہوگیا۔ سلطان ٹیپو کی شہادت پر لارڈ ہارس بے اختیار پکار اُٹھا کہ
’’آج ہندوستان ہمارا ہے‘‘
تمام بڑے مورخ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ سندھیا کی وفات کے بعد انگریز ہندوستان کی سرزمین پر مکمل قبضہ کی راہ میں صرف ایک شخصیت کو اپنا حریف سمجھتے تھے اور وہ تھا میسور کا مسلم فرمانروا ’’ٹیپو سلطان‘‘۔ ہندوستان کو غلامی سے بچانے کے لیے ٹیپو نے اُس وقت کی ہندوستان کی تمام طاقتوں کو انگریزوں کے خلاف متحد ہونے کی دعوت دی، حالاں کہ اُس وقت کے والیانِ ریاست متحدہ قومیت کے تصور سے بھی آشنا نہیں تھے۔ ٹیپو نے مرہٹوں اور نظام دونوں کو آنے والے خطرے سے آگاہ کرنے کی کوشش کی، انہیں متحد ہو کر آزادی کی حفاظت کی ترغیب دلائی لیکن افسوس ذاتی اقتدار اور شخصی مفاد کی خاطر انگریزوں کا ساتھ دیا گیا، بالکل اسی طرح جیسے آج اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے امریکیوں کا ساتھ دیا جارہا ہے۔ لیکن اقتدار رہا نہ حکومت ہاں یہ ہوا کہ پوری ہندوستانی قوم غلامی کی دلدل میں دھنس گئی جس پر ہر تاریخ داں نے انہیں غدارانِ قوم کے لقب سے پکارا۔ اقبال نے کہا۔
جعفر از بنگال و صادق ازدکن
ننگِ آدم ننگ دیں ننگ وطن
لیکن افسوس کہ نہ جعفر و صادق سبق سیکھتے ہیں نہ اُن کے حامی و موالی ہی عقل سے کام لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اپنی آزادی کے حقیقی ہیروئوں کو بھلادیا۔ غلامی اور محکومی سوچ و فکر میں ایسے بسائی کہ آقائوں کی ہر ادا کو دل سے لگایا‘ اُن کے طور طریقے ادب، آداب، تہذیب و ثقافت، زبان، لباس ہر چیز کو اپنایا، اُن کی خوشی کو اپنی خوشی اور اُن کی ناراضی کو اپنی ناراضی کہا ہی نہیں سمجھا بھی۔ لہٰذا ہم نے اپنی تاریخ میں آزادی کے ان تمام ہیروں کو جگہ نہ دی جنہوں نے انگریزوں کو ناکوں چنے چبوائے۔ سراج الدولہ، حافظ رحمت خان، شاہ اسماعیل شہید اور سید احمد شہید سب کو فراموش کردیا۔ یہ سب اس طبقے نے کیا جو اہل دانش کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کی بنیادی ذمے داری قومی زندگی کو استحکام اور قوت فراہم کرنا ہوتی ہے۔
اقبال نے تاریخ کی گرد صاف کرکے ہمیں ان کی یاد دلائی لیکن اب تو لگتا ہے کہ اقبال کو بھی ہم نے فراموشی کے پردوں سے ڈھانپنے کا ارادہ کرلیا ہے۔
مہینوں کیا برسوں گزرے جاتے ہیں، ریڈیو، ٹی وی پر نہ اقبال کی شاعری سنائی دیتی ہے نہ اُن کی فکر سے آگاہی کا کوئی پروگرام کیا جاتا ہے۔ یوں نئی نسل اقبال سے ناآشناسی ہوتی جارہی ہے۔ اقبال ٹیپو سلطان سے اپنی ملاقات کا حال جاوید نامہ میں یوں کہتے ہیں۔
آں شہیدانِ محبت اِمام
آبروئے ہندو چین و روم و شام
نامش از خورشید و مہ تابند تر
خاک قبرش از من و تو زندہ تر
یعنی اے اقبال! سلطان ٹیپو شہیدانِ محبت کا امام تھا اور مشرقی ممالک کی آبرو (آزادی) اُس کی ذات سے وابستہ تھی آج اُس کا نام سورج اور چاند سے زیادہ روشن ہے اور اُس کی قبر کی مٹی ہندوستان کے رسمی مسلمانوں سے زیادہ زندگی کے خواص اور آثار اپنے اندر رکھتی ہے۔ سیاسی تدبر اور حسنِ تدبیر میں ٹیپو سلطان کو تمام ہندوستانی بادشاہوں پر بلند مقام حاصل ہے۔ وہ ہندوستان کے مقتدر حلقوں میں پہلا شخص تھا جس نے انگریز بادشاہت کے بڑھتے ہوئے اثرات اور اُس میں پنہاں خطرات کو پوری طرح محسوس کیا اور اُن کو روکنے کے لیے بہترین تدابیر جو کچھ ہوسکتی تھیں کیں۔ اس نے فوجی طاقت کے علاوہ صنعتی اور تجارتی شعبوں کی اہمیت کو محسوس کیا، تمام گردونواح کے مسلمانوں کو دعوت دی کہ وہ سمٹ کر اس کی سلطنت میں جمع ہوجائیں۔ کیوں کہ مضبوط متحد آبادی کی اہمیت سے واقف تھا۔ اُس نے مسلم اور غیر مسلم ریاستوں کو انگریزوں سے مقابلہ کرنے کے لیے متحد کرنے کی بھی حت الامکان کوششیں کیں۔
ان تمام حکمتوں اور قابلیت کے باوجود وہ ناکام رہا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ وہ تمام قابلیتیں اور خوبیاں اُس کی شخصی تھیں اجتماعی نہیں تھیں۔ ہندوستان کے لوگ اخلاقی طور پر بُری طرح بگڑ چکے تھے۔ سب سے بڑھ کر ہر فرد اپنے اپنے ذاتی فائدے کے لیے ہر انتہا پر جانے کے لیے تیار تھا۔ لہٰذا جہاں اجتماعی فائدے کے بجائے ذاتی فائدہ اہم بن جائے، فرد قوم کے بجائے اپنی ذات کو مقدم رکھے تو وہاں کسی دوسری قوم کو غلبے سے روکنا ممکن نہیں رہتا۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اور اس فتنے سے بچتے رہو، جو اگر اُٹھا تو اُس کی زد انہی پر نہیں پڑے گی جو تم میں ظلم کرنے والے ہیں بلکہ سبھی اس کی لپیٹ میں آجائیں گے‘‘۔ (سورہ انفال)
’’سیدناا عبداللہ بن عباسؒ جن کو رسول اللہ نے ’’ترجمان القرآن‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ ’’فتنہ‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ لَسَّلْطُ الُطْلَمتہِ یہ ظالم قوم کا تسلط ہے۔ قرآن میں اسی سورت میں دو آیت کے بعد اس ظلم کی تفسیر فرمادی گئی کہ کون سی بداعمالی ہے جس کا ارتکاب اگر قوم کے بعض افراد کریں تو تمام قوم کی قوم محکوم بنادی جاتی ہے۔ فرمایا گیا ’’مسلمانو ایسا نہ کرو کہ اللہ اور اس کے رسول سے خیانت کرو اور نہ یہ کہ آپس کی امانتوں میں خیانت کرو‘‘۔ اللہ کی سنت یہی ہے کہ جب کسی قوم کے مقتدر افراد قومی اور ملی خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں تو اُن کی بداعمالی کی سز امیں تمام قوم کی قوم غلام اور محکوم بنادی جاتی ہے‘‘۔
یہ نوشتہ تقدیر ہے جسے پڑھا اور سمجھا نہیں گیا تو غلامی کی دلدل میں دھنسنا پھر مقدر ٹھیرے گا۔