امریکا، خلیج فارس کو واشنگٹن یا نیویارک سمجھنے کی غلطی نہ کرے، ایران

332

تہران (مانیٹرنگ ڈیسک) ایران اور امریکا کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی پر ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکا کو پیغام دیا ہے کہ انہیں روزانہ کی بنیاد پر ایرانی قوم کے خلاف منصوبہ بندی نہیں کرنی چاہیے۔خیال رہے کہ تہران اور امریکا کے درمیان حالیہ عرصے کے دوران ہونے والے تنازعات کی وجہ سے تجارتی محاذ آرائی جاری ہے اور سمندر میں بھی کئی مواقع پر دونوں کی کشتیاں اور مسلح دستے آمنے سامنے آ چکے ہیں۔دونوں ملکوں کے درمیان آخری مرتبہ کشیدگی اس وقت انتہا کو پہنچ گئی تھی جب 15 اپریل کو امریکا نے کہا تھا کہ بحیرہ عرب میں 11 ایرانی کشتیوں نے امریکی بحریہ کی کشتیوں کو ہراساں کرنے کی کوشش کی۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام میں کہا تھا کہ انہوں نے امریکی بحریہ کو حکم دیا ہے کہ اگر ایران ہماری کشتیوں کو ہراساں کرنے کی کوشش کرے تو انہیں تباہ کر دیں۔ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے امریکی ہم منصب اس بیان کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکیوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس خلیج کو خلیج نیویارک یا خلیج واشنگٹن نہیں بلکہ خلیج فارس کہا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکیوں کو اس نام سے صورتحال کو سمجھنا چاہیے اور اس ساحلی قوم کے نام سے چیزوں کو سمجھنا چاہیے جو کئی ہزاروں سالوں سے اس پانی کی حفاظت کر رہی ہے، انہیں ایرانی قوم کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر منصوبہ بندی نہیں کرنی چاہیے۔کابینہ کے اجلاس کے بعد ٹیلی ویژن سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر نے کہا کہ ہماری مسلح افواج کے سپاہی انقلاب کے محافظ ہیں، فوج، باسج اور پولیس خلیج فارس کی محافظ رہی ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ایران اور امریکا کے درمیان کئی دہائیوں سے تنازعات چل رہے ہیں لیکن دونوں ملکوں کے دوران تناؤ اس وقت انتہا کو پہنچ گیا تھا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کردیا تھا اور ان کے جوہری پروگرام کو منجمد کرتے ہوئے ایران پر سخت معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں۔دونوں حریف گزشتہ سال جولائی سے اب تک دو مرتبہ براہ راست عسکری لڑائی کے انتہائی قریب آئے چکے ہیں۔گزشتہ سال ایران نے امریکی ڈرون کو مار گرایا تھا اور اس موقع پر ٹرمپ نے جوابی فضائی حملے کو آخری وقت میں روک لیا تھا۔پھر رواں سال جنوری میں عراق میں امریکی فضائی کارروائی میں ایرانی جنرل قاسلم سلیمانی ہلاک ہو گئے تھے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔