تل ابیب: فلسطین میں اسرائیل کے غیر قانونی تسلط کو 72 برس بیت گئے۔
فلسطین میں قیام اسرائیل کے 72 برس مکمل ہوگئے رپورٹ کے مطابق قیام اسرائیل کے سات عشروں کے بعد بھی 1 کروڑ 30 لاکھ فلسطینی ہجرت کی زندگی گزارنے پرمجبور ہیں ،انہیں اپنےہی وطن میں واپسی کا حق نہیں۔
سنہ 1948ء میں ارض فلسطین میں صہیونی ریاست کےقیام کےبعد 12.4 ملین فلسطینی ہجرت کی زندگی گزارنے پرمجبور ہیں،سنہ 1948ء میں اپنے گھر بار چھوڑنے والے فلسطینیوں کی تعداد میں اب 10 گنا سے زائد کا اضافہ ہوچکا ہے۔ بے گھر ہونے والے فلسطینی میں دوسرے ملکوں میں پناہ گزین کی حیثیت سے رہ رہے ہیں ایک بڑی تعداد بیت المقدس، غرب اردن اور غزہ کی پٹی میں مہاجر کیمپوں میں رہتی ہے۔
اقوام متحدہ کی قراردادکےمطابق برطانوی فوج کو مئی 1948ء تک علاقے کی نگرانی کرنی تھی جبکہ برطانوی فوج نے اپنا بوریا بستر لپیٹنا شروع کردیا تھا، عربوں نے الزام لگایا کہ جاتے ہوئے برطانوی فوجی اپنا اسلحہ اسرائیلیوں کےحوالے گئی ،برطانوی فوج کی واپسی سے ایک ماہ پہلے 5 اپریل 1948ء کو اسرائیلی فوج یروشلم میں داخل ہوئی ، معاہدے کے تحت بیت المقدس میں فوج تو دور کی بات، کسی شخص کو اسلحہ لے کر جانے کی اجازت بھی نہ تھی۔ فلسطینیوں نے بیت المقدس میں مسلح اسرائیلیوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن جدید اسلحہ سے لیس اسرائیلیوں نے اس مزاحمت کو کچل دیا۔ اس تصادم میں سینکڑوں فلسطینی شہید ہوئے ۔
برطانیہ کی واپسی کے ساتھ ہی یہودی رہنما ڈیوڈ بن گوریان نے(اسرائیل )کے نام سے ملک کےقیام کا اعلان کیاجسے امریکا ،روس نے فوری طور پر تسلیم کیا۔ اُس وقت ہیری ٹرومن امریکہ کے صدر اور مشہور کمیونسٹ رہنما جوزف اسٹالن روس کےسربراہ تھے۔
اسرائیلی فوج نے جدید اسلحے کے زور پر فلسطینیوں کے مظاہروں کو کچل دیا جس کے بعد اسرائیلی فوج نے فلسطینی بستیوں کو گھیرااور 7 لاکھ فلسطینیوں کو غزہ کی طرف دھکیل دیا گیا، قبضے کی اس مہم میں فلسطینیوں سے مجموعی طور پر 2000 ایکڑ اراضی چھینی گئی، فلسطینیوں کا جبری اخراج 15 مئی 1948ء کو مکمل ہوا جسے فلسطینی ’’یوم النکبہ‘‘ یا بڑی تباہی کا دن کہتے ہیں۔
یاد رہےکہ فلسطین میں 10 ہزار یہودی اور 8 لاکھ 18 ہزار عرب آباد تھے جبکہ بیت المقدس کی آبادی 1 لاکھ تھی جہاں مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی تعداد تقریباً برابر تھی۔