اقوام متحدہ کے تین اداروں WHO، UNESCO اور WWF کو شروع ہی سے دنیا میں نیو ورلڈ آرڈر کے لیے فرنٹ لائن آرمی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ یہ WHO ہی ہے جس نے دنیا بھر میں مختلف بیماریوں والے جراثیم اپنی چھتری تلے میں ٹیسٹ کے لیے پیش کیے۔ ایڈز، ایبولا، زیکا، ملیریا، پولیو، غرض کون سی جاں لیوا بیماری ہے جو WHO کے ذریعے اس دنیا میں نہیں پھیلائی گئی۔ ان بیماریوں کا خوف کس طرح سے پھیلایا جاتا ہے اور ان کی پروجیکشن کس طرح سے کی جاتی ہے کہ کتنے عرصے میں یہ بیماری کتنے افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی، اس بات کو سمجھنے کے لیے میرے چار برس قبل لکھے ہوئے زیکا وائرس کے بارے میں آرٹیکل سے اقتباسات اور پھر اس کے بعد موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہیں۔ یہ آرٹیکل فروری 2016 میں لکھے گئے تھے اور میری ویب سائٹ پر ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔
زیکا کے بارے میں 2016 میں امریکا میں انتباہی نوٹس جاری کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اکتوبر 2015 سے لے کرفروری 2016 تک صرف برازیل میں چار ہزار ایسے کیس رپورٹ ہوچکے تھے جس میں پیدا ہونے والے بچوں کے سر معمول سے انتہائی چھوٹے تھے۔ یہ بچے بڑے ہو کر بالکل ایسے ہی ہوں گے جیسے شاہ دولے کے چوہے۔ آئیے زیکا وائرس کے منبع کو ڈھونڈھتے ہیں۔
کہا گیا کہ اگر پیلا بخار، ڈینگی اور اس طرح کی بیماری پر قابو پانا ہے تو علاج بالمثل کے طور پر اس بیماری کو پھیلانے والے مچھر میں جینیاتی تبدیلی کر کے ان علاقوں میں چھوڑا جائے جو اس کا منبع ہیں۔ اس پروجیکٹ پر برطانیہ کی بائیوٹیک کمپنی آکسی ٹیک میں کام شروع کردیا گیا۔ اس پروجیکٹ کے تحت نئے تیار کردہ مچھروں کو 2009 میں پہلی مرتبہ کیریبین جزائر میں چھوڑا گیا۔ اس کے بعد اس کے مسلسل ٹرائل ہوتے رہے اور حتمی طور پر اسے برازیل میں جولائی 2015 میں چھوڑ دیا گیا۔ اس کے بعد اس کی اصل تباہ کاریاں سامنے آنی شروع ہوئیں۔ برازیل میں جو حاملہ خواتین اس کا شکار ہوئیں ان کے گھر چھوٹے سر والے بچوں کی پیدائش ہونے لگی۔ اس وقت برازیل کی 26 میں سے 18 ریاستیں زیکا وائرس کی وبا کی لپیٹ میں ہیں۔ برازیل سے نکل کر یہ وائرس پورے وسطی اور جنوبی امریکا میں پھیل چکا ہے اور اب اس کا رخ پوری دنیا کی طرف ہے۔ یہ نہیں ہوا کہ صرف زیکا وائرس ہی پھیلا ہے اور ڈینگی و پیلا بخار و دیگر بیماریاں قابو میں آگئی ہیں۔ یہ ساری بیماریاں اپنی جگہ پر نہ صرف موجود ہیں بلکہ ان سے متاثرہ افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے تاہم انہوں نے وبائی صورت اختیار نہیں کی ہے۔ کہنے کو تو یہ وائرس چار سو میٹر کے سفر کے دوران ہی اپنی موت آپ مرجاتا ہے اور اس کا کیریئر مچھر بھی اتنا طول طویل سفر نہیں طے کرسکتا۔ اس سوال کے جواب میں اب یہ کہا جارہا ہے کہ یہ انسان ہے جو اس بیماری کو لے کر دیگر ممالک تک پھیلا رہا ہے (کورونا وائرس کی طرح)۔
کیا یہ محض اتفاق ہے؟ اس سوال پر گفتگو سے پہلے ایک اور انکشاف۔ اس پروجیکٹ کو فنانس کرنے والا ادارہ تھا ملنڈا اور بل گیٹس فاؤنڈیشن۔ یہ وہی این جی او ہے جو دنیا بھر میں پولیو کے خاتمے کی مہم کو اسپانسر کرتی ہے۔ پولیو کے خاتمے کے نام پر زبردستی پولیو وائرس کے قطرے پلائے جاتے ہیں اور اگر کوئی انکار کرے تو پاکستانی حکومت اسے جیل میں ڈال دیتی ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ اس وقت دنیا ایک ایسے خوفناک خطرے سے دو چار ہے جس میں پیدا ہونے والی نئی نسل ذہنی طور پر اپاہج ہوگی۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو قدرتی نہیں ہے بلکہ باقاعدہ لیبارٹری میں تیار کردہ ہے اور پورے ٹرائل کے بعد پھیلائی گئی ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ زیکا وائرس 1947 میں دریافت ہوچکا تھا مگر اس کے دریافت کنندہ تھے کون؟ یہ دریافت کنندہ تھی راکفیلر فاونڈیشن، عالمی سازش کاروں کے گروہ کا ایک اہم رکن۔ راکفیلر فاونڈیشن کے مالی تعاون سے پیلے بخار پر کام کرنے والا تحقیقاتی انسٹی ٹیوٹ برازیل میں زیکا کے جنگلات میں جھیل وکٹوریہ کے پاس بیس فٹ اونچے ٹاور پر ان مچھروں پر تحقیقات کررہا تھا جو بلندی پر پائے جاتے ہیں۔ 18 اپریل 1947 کو اس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ٹیم کے پاس تجربے کے لیے موجود بندر نمبر 766 میں پیلا بخار ہوا۔ اس بندر کا سیرم نکال کر چوہوں میں داخل کیا گیا جس کے نتیجے میں زیکا وائرس پیدا ہوا۔ اس وقت یہ محدود پیمانے پر پھیلا اور اپنی موت آپ مرگیا مگر لیبارٹری میں یہ زندہ رکھا گیا۔ اور اب ان ہی عالمی سازش کاروں کے ایک اور اہم رکن کی این جی او ملنڈا اینڈ بل گیٹس فاونڈیشن کے مالی تعاون سے اسے جنوبی اور وسطی امریکا میں پھیلا دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ راکفیلر فاونڈیشن اقوام متحدہ کی جانب سے ڈی پاپولیشن پروگرام کی سب سے بڑی اسپانسر ہے۔ اقوام متحدہ کے ڈی پاپولیشن پروگرام کو عرف عام میں ایجنڈا 21 کے نام سے جانا جاتا ہے۔
بعد میں پتا چلا کہ برازیل میں حاملہ خواتین کے لیے ایک نئی ویکسین متعارف کروائی گئی تھی جس میں پانچ بیماریوں تشنج، پولیو، ممز، روبیلا اور خسرہ کے لیے ایک ہی ڈوز بنائی گئی تھی۔ جن جن خواتین کو یہ ویکسین لگائی گئی، ان سب خواتین کے ہاں زیکا زدہ بچے پیدا ہوئے۔ جیسے ہی یہ ویکسین لگانی بند کردی گئی، زیکا وائرس دنیا بھر میں اپنی موت آپ مرگیا۔
زیکا وائرس کے لیے بھی اسی طرح مہم چلائی گئی تھی جس طرح سے آج کورونا کے لیے چلائی جارہی ہے۔ اس پر پوری دنیا کا مین اسٹریم میڈیا خصوصی پروگرام کررہا تھا۔ اس میڈیا کی بریکنگ کئی مدارج پر مشتمل رہی۔ پہلی بریکنگ یہ تھی کہ زیکا وبائی صورت اختیار سکتا ہے، دوسری بریکنگ: تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے، تیسری بریکنگ: زیکا وائرس صرف خاص مچھر ہی سے نہیں بلکہ عام مچھروں سے بھی پھیل سکتا ہے۔ کہا گیا کہ زیکا دنیا کی کم ازم کم چالیس لاکھ آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اس پوری منظم مہم کا جو منطقی نتیجہ نکلنا تھا وہ سامنے تھا یعنی عام لوگوں میں خوف و ہراس۔ اس عرصے میں جوڑوں نے حمل ٹھیرانا ہی بند کردیا۔
مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ زیکا کے تناظر میں اب کورونا کی مہم کو دیکھیے تو بہت کچھ اندازہ از خود ہوجاتا ہے۔ کورونا کے بارے میں ایک بات اور کہی جاتی ہے کہ ا س کا mortality rate یعنی اس بیماری میں مرنے کی شرح دیگر بیماریوں سے زیادہ ہے۔ ایک تو یہ بات ہی غلط ہے، یہ مختلف ممالک میں مختلف۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس میں موت کی شرح کیا ہے۔ مجموعی نقصان دیکھا جاتا ہے۔ جہاز کے حادثے میں موت کی شرح سو فی صد ہے تو پھر کیا لوگ جہاز میں سفر نہیں کرتے۔ اسی طرح یہ دیکھا جائے کہ کورونا نے اب تک دنیا کی کتنی فی صد آبادی کو متاثر کیا ہے اور کتنے لوگ اس سے جاں بحق ہوئے ہیں تو بات کرنا آسان ہوتی ہے۔ کم ازکم پاکستان کی حد تک تو ہم جانتے ہیں کہ کس طرح سے دیگر امراض میں مرنے والوں کو کورونا کے کھاتے میں ڈالا جارہا ہے اور کس طرح سے کورونا کے جعلی مریض سامنے لائے جارہے ہیں۔ پاکستان میں اس کے دو ہی مقاصد ہیں۔ پہلا عالمی حکمرانوں کے املا پر چلنا اور دوسرا مال بنانا۔ دونوں میں ہی پاکستان کے حکمراں خصوصی طور پر سید مراد علی شاہ کامیاب ہیں۔ کورونا کے بارے میں عالمی ماہرین کی رائے پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔