تاجر… سوئڈن والی حکمت عملی چاہتے ہیں

460

غزالہ عزیز
کراچی کے تاجر جس جنجال میں پھنسے ہوئے ہیں اُسے وہی جانتے ہیں۔ ایک طرف حکومتوں کا ٹکرائو ہے یعنی سندھ اور وفاق کی کشمکش دوسری طرف طرف بجلی کی لوڈشیڈنگ اور اب کورونا نے آکر تو انہیں حوالات کی راہ دکھا دی ہے۔ اب تک سندھ میں لاک ڈائون کا پینتیسواں دن ہوچکا ہے۔ حکومت کسی صورت دکانداروں کو اپنی دکانیں کھولنے کی اجازت دینے پر آمادہ نہیں۔ درجنوں تاجروں کو اس جرم میں گرفتار کیا جاچکا ہے۔ تاجر حکومت کی بتائی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر آمادہ ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عوام کو سمجھانا بھی آسان نہیں ہے۔ حکومت تو بس آسانی دیکھ رہی ہے کہ سب بند کرادو۔ حالاں کہ تاجروں کو سہولت فراہم کرنا بھی اُس کی ذمے داری ہے۔ تاجر ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور کراچی کے تاجر تو پورے ملک کا بوجھ کندھے پر اُٹھاتے ہیں لیکن حکومت آئی جی کے ذریعے تاجروں کو دھمکا رہی ہے کہ تاجر برادری امن وامان کا مسئلہ نہ پیدا کریں ورنہ…
سندھ حکومت کی عوام دشمنی حیران کردیتی ہے۔ الخدمت جس طرح دن رات لوگوں کے لیے مصروف ہے اُسے وہ بھی گوارا نہیں۔ خاص طور سے الفلاح تھانے کے اہلکاروں نے ایک طرف غریبوں میں راشن کی تقسیم میں مصروف رضا کاروں کو سخت نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں، صرف دھمکیاں نہیں بلکہ تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں۔ جماعت اسلامی کی پبلک ایڈ کمیٹی کے رہنما کے گھر چھاپا مار رہے ہیں۔ پولیس اہلکار سیڑھی لگا کر گھر میں داخل ہورہے ہیں۔ چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کررہے ہیں۔ یہ کیسی عوامی پارٹی ہے اور کیسی عوامی پارٹی کی حکومت ہے۔ جو عوام کی خدمت نہ خود کرنے پر آمادہ ہے اور نہ لوگوں کو کرنے دینا چاہتی ہے۔
کراچی کے تاجروں کے لیے ان کی دشمنی کی حد تک جاتی سختی ایک طرف عوام کو مشکلات میں ڈال رہی ہے، دوسری طرف تاجر اور صنعت کار پریشان ہیں۔ اپنے ملازمین اور کو ایک ماہ کی تنخواہ کے بعد دوسرے ماہ کی تنخواہ کیسے دیں؟ جب کہ رمضان کے مہینے میں تو ملازمین کو بونس بھی دیا جاتا تھا جس کے لیے وہ پورے سال انتظار کرتے تھے اور اس کے ذریعے اپنی کتنی ہی ضروریات پوری کرتے تھے۔ کیا سندھ حکومت چاہتی ہے کہ صنعت کار اور تاجر اپنے ملازمین کو نکال دیں۔ آخر وہ بیروزگاری اور جرائم کے سیلاب کے انتظامات کرنے میں کیوں مصروف ہیں؟ کمشنر کراچی کا کہنا ہے کہ وہ سندھ حکومت کی اجازت کے بغیر کسی کو کاروبار کی اجازت نہیں دیں گے اور جو دکاندار دکان کھولے گا اسے گرفتار کرلیا جائے گا۔ تاجر رہنما کہتے ہیں سندھ حکومت مذاکرات کے بہانے وقت ضائع کررہی ہے۔ انہیں نہ عوام سے ہمدردی ہے نہ تاجروں اور مزدوروں کا خیال ہے۔ دراصل سندھ حکومت تاجروں کا معاشی دیوالیہ نکالنا چاہتی ہے۔ مارکیٹیں بند ہونے سے لاکھوں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں۔ تاجر پانی، بجلی کے بل اور ٹیکس دینے کی حالت میں نہیں رہے ہیں۔ سندھ بالخصوص کراچی میں امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔ ملک کے دیگر حصوں میں اس طرح کا لاک ڈائون نہیں ہے۔ کیوں نہیں یہاں بھی احتیاط پر عمل کے ساتھ تاجروں کو دکانیں کھولنے کی اجازت دی جارہی ہے؟ ساتھ ہی صنعتوں کو بھی پیداواری سرگرمیوں کی اجازت دینا چاہیے۔ دنیا کی طرف دیکھیں جو بتدریج لاک ڈائون میں نرمی اور شہری آزادی کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ جرمنی میں دکانیں کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے، جرمنی کی سب سے بڑی آبادی والی ریاست ’’نارتھ رائن ویسٹ‘‘ میں دکانیں کھل گئی ہیں۔ اکثر اسکول بھی کھول دیے گئے ہیں۔ طلبہ کو امتحانات کی تیاری کے لیے اسکول آنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ چڑیا گھروں کو کھولا جارہا ہے اور عجائب گھروں کو کھولنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ یعنی زندگی آزاد ہورہی ہے۔ حالاں کہ جرمنی کورونا کے بڑے متاثرین میں سے تھا۔
اسپین میں بھی بچوں کو روزانہ ایک گھنٹے کے لیے باہر کھیلنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ حالاں کہ امریکا اور اٹلی کے بعد کورونا کے سب سے زیادہ متاثرین اسپین میں ہیں۔ دکانوں اور بازاروں کا لاک ڈائون وہاں شروع سے ہماری طرح کا نہیں تھا۔ احتیاط کی شرط کے ساتھ لوگ بازاروں سے خریداری کررہے تھے۔ کورونا سے نمٹنے کے لیے سب سے حیران کن طریقہ سوئیڈن نے اپنایا یعنی کیسا لاک ڈائون؟ اور کہاں کا لاک ڈائون… یورپ کا یہ ملک ایسا ہے کہ شروع سے وہاں لوگ معمول کی زندگی گزار رہے ہیں۔ سوئیڈن کی آبادی تقریباً ایک کروڑ ہے۔ سوئیڈن نے یورپ کے برعکس سماجی سرگرمیاں ملک میں بحال رکھنے کا فیصلہ کیا… 16 سال سے کم عمر بچوں کے اسکول بند نہیں کیے تاکہ بچوں کے ساتھ ساتھ والدین بھی مصروف رہیں۔ سوئیڈن میں سرکاری طور پر اس وبا پر سرکاری ردعمل وبائی امراض کے ماہر ’’ڈاکٹر اینڈرز ٹیگنل‘‘ دیتے ہیں۔ وہ ایک تجربہ کر سائنس دان ہیں اور تین عشروں سے انہیں دوائوں اور ان کے استعمال کا تجربہ ہے۔ سوئیڈن کے سائنس دانوں کی پوری کمیونٹی اس بات پر اتفاق کرتی ہے کہ ان کی حکمت عملی مثبت ہے اور دیگر ملکوں میں اپنائی گئی حکمت عملی سے بری نہیں ہے۔