اسلام آباد میں 20 اپریل کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا ہے کہ کورونا مریض صرف 5 ہزار ہیں تو کھربوں روپے کیسے خرچ ہوگئے؟ انہوں نے ریمارکس دیے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے کسی کام میں شفافیت نظر نہیں آرہی،عوام اور بیرون ملک سے لیا گیا پیسہ نہ جانے کیسے خرچ ہو رہا ہے،حکومت پیسے بہت خرچ کر رہی ہے لیکن نظر کچھ نہیں آرہا کہ ہو کیا رہا ہے،کسی صوبے اور محکمے نے شفافیت پر مبنی رپورٹ نہیں دی۔پیر کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 5رکنی لارجر بینچ نے کورونا وائرس از خود نوٹس پر سماعت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو علم نہیں ہوا کہ سندھ حکومت نے ایک ارب کا راشن تقسیم کردیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت چھوٹا سا کام کرکے اخباروں میں تصویریں لگواتی ہے، دوسرے مرحلے میں مزید ڈیڑھ ارب خرچ ہوں گے اور بالآخر سندھ حکومت 8 ارب روپے تک پہنچ ہی جائے گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فیکٹریز ایکٹ پر سندھ کی کوئی فیکٹری پورا نہیں اترتی، ملازمین کے تحفظ کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ بلدیہ فیکٹری میں آگ لگی تو لوگوں کو بھاگنے کا راستہ بھی نہ ملا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فیکٹری ورکرز کے حوالے سے قانون پر عمل نہیں ہو رہا، فیکٹری مالکان اپنے عملے کو انسان نہیں سمجھتے ۔
یہ ہے عدالتی کارروائی کا خلاصہ۔ چیف جسٹس کی یہ بات بہت اہم ہے کہ مالکان مزدوروں کو انسان ہی نہیں سمجھتے اور سندھ حکومت راشن کس کو دے رہی ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ سندھ حکومت نے اچھے قوانین تو بنا دیے ہیں، سندھ حکومت نے سہ فریقی لیبر کانفرنس منعقد کی لیکن حاصل کیا ہوا؟ محکمہ محنت سندھ کی ذمہ داری ہے کہ لیبر قوانین پر عمل کروائے لیکن محکمے کے افسران نے کبھی عمل کروانے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی۔ کورونا وائرس پر بھی محکمہ محنت حکومتی پالیسی پر عمل کروانے میں ناکام ہے۔ پاکستان کی مزدور تحریک کا کام شروع ہی سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ مالکان مزدوروں کو انسان سمجھیں اور محکمہ محنت لیبر قوانین پر عمل کروائے۔