مرنے کے بعد کیا ہوگا

675

یہ ایک کتاب کا عنوان ہے جس میں احادیث کی روشنی میں مرنے کے بعد قبر میں کیا ہوگا ان سب مراحل کی تفصیلات ہیں۔ لیکن یہاں میں نے یہ عنوان کورونا وائرس کے تناظر میں لگایا ہے کہ اس وبائی مرض سے جو اموات ہو رہی ہیں انہیں ہم کس طرح اس کی آخری منزل تک پہنچا رہے ہیں اس پر اپنے ذہنی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کچھ تجاویز پیش کرنا ہے۔ لیکن جب مرنے کے بعد کی بات ہورہی ہے تو ایک نکتے پر اس حوالے سے بھی بات ہو جائے ابھی کل ہی شب قدر گزری ہے۔ اب سے کئی سال قبل شب قدر میں ایک مسجد میں ڈاکٹر اطہر قریشی اسی موضوع پر خطاب کررہے تھے، یعنی ان کا موضوع قبر میں سوال و جواب کے حوالے سے تھا۔ انہوں نے کہا قبر میں جب فرشتے یہ سوال کریں گے کہ من ربک تو آپ کیا سمجھتے ہیں کیا ہم وہاں آسانی سے یہ جواب دے دیں گے کہ اللہ ہمارا ربّ ہے ابھی دنیا میں ہم سے کوئی سوال کرے تو ہم فوراً جواب دے دیں گے اللہ ہمارا ربّ ہے، لیکن قبر میں ہم یہ جواب نہیں دے سکیں گے بلکہ اس کا ٹھیک جواب وہی لوگ دے سکیں گے جنہوں نے دنیا میں اللہ کو عملاً اپنا ربّ مان کر زندگی گزاری ہو گی۔ اس نے دنیا میں قدم قدم پر اللہ کی رضا کو اپنا مشن بنا کر رکھا اور یہ کہ اللہ کی رضا کی خاطر اس نے ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا ہو، نفس کی اکساہٹ کو، شیطانی وسوسوں کو اللہ کی رضا کی خاطر دبا کر رکھا ہو تو وہی قبر میں یہ جواب دے سکے گا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اسی طرح من دینک کا یہ جواب کہ اسلام ہمارا دین ہے وہی لوگ دے سکیں گے جنہوں نے دنیا کی زندگی اسلام کے اصولوں پر گزاری ہو گی اور رسول اکرم ؐ کی شبیہ کو وہی لوگ پہچان سکیں گے جنہوں نے دنیا میں اپنی زندگی اطاعت رسول ؐ اور اتباع رسول ؐ میں گزاری ہو گی۔
کل ایک خبر نظر سے گزری پڑھ کر بہت افسوس ہو ا شمالی امریکا کا ایک شہر ایکواڈور ہے جہاں اسپتال اور مرہ خانے بھر گئے ہیں تو لوگ سڑکوں پر لاشیں ڈال کر جارہے ہیں وہاں کی انتظامیہ پریشان ہے کہ ان کے اختتامی مراحل کس طرح پورے کیے جائیں۔ اٹلی اور دیگر یورپی ممالک کے بارے میں یہ اطلاعات بھی ہیں وہاں لاشیں جلائی جا رہی ہیں۔ ہمارے یہاں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد روزآنہ چار یا پانچ کے حساب سے ہورہی ہیں۔
اب تک ہماری قومی و صوبائی حکومتیں اس طرف زیادہ توجہ دے رہی ہیں کہ یہ وبا زیادہ نہ پھیلنے پائے اور یہ کہ ہر سرکاری اسپتال میں کورونا وائرس کی تشخیص کے حوالے انتظامات کیے ہوئے ہیں ہمارے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر مریضوں کا علاج کررہے ہیں اور لوگ صحیح ہو کر اپنے گھروں کو جارہے ہیں یہ اللہ کا شکر ہے کہ روزآنہ مرنے والوں کی تعداد بیس کے ہند سے کے اندر ہے اور اس مرض سے ٹھیک ہو کر جانے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ البتہ جو لوگ اس وبا سے شہید ہورہے ہیں ان کی تدفین کے حوالے سے حکومت نے جو انتظام کیے ہیں اس کے بارے میں طبیعت میں اطمینان محسوس نہیں ہو رہا ہے ویسے تو کراچی کے کچھ قبرستانوں کو اس کے لیے مختص کردیا گیا ہے لیکن وہاں تدفین نہیں ہو پارہی ہے۔ کورونا وائرس سے متاثر شخص جب زندہ ہوتا ہے تو ہمارے ڈاکٹر اور دیگر اسٹاف اپنی پورے کٹ اور اس کے مخصوص لباس کے اندر رہتے ہوئے اس کی تیمار داری کرتے ہیں، لیکن جب وہ مرجاتا ہے تو کیا وہ اب اتنا خطرناک ہو جاتا ہے کہ اس کے قریب جاتے ہوئے ڈر محسوس ہوتا ہے۔
اس حوالے سے میری تجویز ہے کہ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم بنائی جائے جو اس وبا سے جاںبحق ہونے والوں کی تدفین کے مراحل میں نگرانی کرے اور اس حوالے سے کارکنان کی حوصلہ افزائی کریں حکومت کو خصوصی طور پر یہ اعلان کرنا چاہیے کہ ہمیں ایسے مردان کار کی ضرورت ہے جو کورونا وائرس سے مرنے والوں کو نہلانے کفنانے اور قبر میں عزت احترام اور توقیر کے ساتھ اتارنے کا فریضہ انجام دیں۔ یہ ویسے تو اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے والا کام ہے لیکن اس کا اجر بھی بہت زیادہ ہے۔ اور ہمارے ملک میں ایسے نوجوانوں کی کمی نہیں ہے جو رضائے الٰہی کی خاطر اس کام کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ ڈاکٹرز حضرات کی اس حوالے سے یہ آبزرویشن بھی سامنے آنا چاہیے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ زندہ زیادہ خطرناک ہے یا مردہ۔ کچھ ڈاکٹروں کا یہ بیان تو نظر سے گزرا تھا کہ کورونا وائرس سے مرنے والے کھانس سکتے ہیں نہ چھینک سکتے ہیں۔ اس لیے ان کے قریب جانا شاید اتنا خطرناک نہ ہو اسی طرح اس وبا سے مرنے والوں کے رشتہ داروں کو پابند کیا جاتا ہے کہ صرف ایک یا دو افراد نماز جنازہ میں شریک ہوں گے میرے خیال اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے مرنے والوں کے لواحقین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ آخری بار اگر منہ نہ بھی دیکھ سکیں تو کم از کم نماز جنازہ اور قبر پر مٹی ڈالنے کے مراحل تو مکمل کرلیں۔
میری تجویز ہے کہ پہلے اس حوالے سے ہمارے علماء کرام اپنی رائے کا اظہار کریں کہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ ہم مرنے والے کے لواحقین کو کس حد تک تجہیز و تکفین کے عمل میں شرکت کر سکتے ہیں پھر ڈاکٹرز حضرات بھی اپنی رائے کا اظہار کریں اور پھر اس کا کوئی متفقہ لائحہ عمل بنائیں جس کا باقاعدہ اعلان کیا جائے اگر حکومت یہ فریضہ انجام دینے میں تساہل سے کام لے رہی ہو تو ہماری این جی اوز جو اس حوالے سے متحرک ہیں وہ ایسے کارکنان کی ٹیم تشکیل دیں اور حکومت کی اجازت سے تدفین کے مراحل انجام دیں اس لیے اس وبا سے جاں بحق ہونے والوں کا یہ حق ہے کہ جس طرح محبت سے ہم نے ان کا علاج کیا تھا اسی طرح محبت سے اس کے آخری مراحل بھی مکمل کیے جائیں۔ اور اس بات میں بھی کوئی مظائقہ نہیں ہے کہ ہم ان کارکنان کو ہم اس کا معقول معاوضہ بھی ادا کریں آخرت کا اجر تو ان شاء اللہ ان کو ملے گا ہی۔ لیکن یہاں بھی ہمیں ان کی محنت کا معاوضہ ادا کرنا چاہیے یہ پیسے ہم لواحقین سے بھی لے سکتے ہیں بلکہ ہمارے کچھ مخیر حضرات بھی اس میں تعاون کر سکتے ہیں ہمیں اس میں تین ٹیمیں بنانی چاہیے ایک ٹیم نہلانے والی ہو ایک ٹیم کفنانے والی ہو اور ایک ٹیم قبر میں اتارنے والی ہو۔ لواحقین میں دو یا چار افراد کے بجائے ہمیں پندرہ سے بیس افراد کو نماز جنازہ میں شرکت کی اجازت دینا چاہیے تاکہ قریبی دوست احباب اس میں شریک ہوں لیکن یہ سب کام اسی این جی او یا حکومت کی نگرانی میں ہو۔ الخدمت فائونڈیشن اس حوالے سے کوئی اہم رول ادا کرسکتی ہے۔