انسان آزاد پیدا ہوا لیکن وہ زنجیروںمیں جکڑا نظر آتا ہے ۔ یہ جملہ فرانسیسی فلسفی ژاں ژاک روسو کا ہے جس کا زمانہ آج سے کوئی تین سو برس قبل کا ہے ۔ روسو نے یہ جملہ کہا تو کسی اور تناظر میں تھا مگر یہ آج کی دنیا میں مکمل طور پر فٹ نظر آتا ہے ۔ ہر روز انسان کو جکڑنے والی زنجیر میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ۔ انسان کو غلام بنانے کی منظم کوششوں کا باقاعدہ آغاز انقلاب برطانیہ سے ہوا تھا ۔ انقلاب برطانیہ کے فوری بعد ہی انقلاب فرانس لایا گیا جس کے لیے روسو نے فکری بنیادیں فراہم کیں ۔ یہی انقلاب فرانس ہی اصل میں ایک نئی عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازش کا منظم آغاز تھا ۔ دنیا بھر میں یہ سارے انقلابات کس طرح سے لائے گئے اور عالمی جنگوں کا تھیٹر کس طرح سے سجایا گیا اور ا ن سے کیا مقاصد اور اہداف حاصل ہوئے ، اس پرتفصیل سے میں اپنی کتاب جنگوں کے سوداگر میں لکھ چکا ہوں۔ جو قاری یہ کتاب pdf پر حاصل کرنا چاہتے ہوں ، وہ مجھ سے ای میل پر رابطہ کرسکتے ہیں۔
نائن الیون سے قبل انسانوں کو جکڑنے والی یہ زنجیریں کم بھی تھیں اور ڈھیلی بھی ، اس لیے ان کی جکڑ زیادہ محسوس نہیں ہوئی ۔ تاہم نائن الیون کے بعد نہ صرف ان زنجیروں میں تیزی سے اضافہ شروع ہوگیا بلکہ ان کی جکڑ بھی سخت ہوتی چلی گئی ۔ یہ ساری زنجیریں انسان کو اس کی اپنی سلامتی اور فلاح کے نام پر ہی پہنائی جاتی ہیں ۔ اکثر افراد یہ زنجیریں خوشی سے اپنے گلے میں ڈال لیتے ہیں تاہم اگر کوئی ان زنجیروں کو پہننے میں مزاحمت کرے تو اسے حالات و واقعات کے ذریعے اس کے لیے مجبور کردیا جاتا ہے اور اگر کوئی اس نظام کے لیے خطرہ ثابت ہونے لگے تو اسے تحلیل کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔
دنیا بھر میں کورونا سے وہ نقصان نہیں ہوا جتنا ا س کے نام پر اب تک پہنچا دیا گیا ہے اور اس نقصان کا تو محض اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے ، جو مستقبل قریب میں پہنچنے والا ہے ۔ کورونا کو پھیلنے سے بچانے کے نام پر اب ہر طرف انسان کی ایک ایک حرکت پر نگاہ رکھی جارہی ہے ۔ کورونا کے دور سے قبل تک یہ سمجھا جاتا رہا تھا کہ یہ زنجیریں بہت ہیں ، اب اس سے زیادہ انسان کو کیا قید کیا جائے گا کہ تم یہ کھاو گے اور یہ نہیں ، یہ پہنو گے اور یہ نہیں ، کس شخص کو کس ملک میں جانے کی آزادی ہے اور کسے نہیں ، کب شادی کروگے اور کب نہیں ، کتنے بچے پیدا کروگے وغیرپہ وغیرہ ، ریاست جب چاہے کسی بھی شخص کو قید میں ڈال دے ، کوئی پوچھنے کی جسارت نہیں کرسکتا ۔ تاہم کورونا کے بعد اب یہ بھی سمجھ میں آگیا ہے کہ دنیا میں کس طرح سارے لوگوں کو ان کے اپنے گھروں میں بیک وقت قید کیا جاسکتا ہے ۔ کس طرح سے کسی بھی شہری کو ایک بیماری کے نام پر قید تنہائی میں ڈالا جاسکتا ہے ، اور کس طرح کسی شخص کو ایک بیماری کے نام پر قتل کیا جاسکتا ہے ۔ جس طرح نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ایک شہری سے تمام آزادیاں سلب کرلی گئیں اور اسے مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے بارے میں تمام تفصیلات سے ریاست کو آگاہ کرے ، بالکل اسی طرح کورونا کے نام پر انسان سے مزید آزادیاں چھین لی گئیں ۔ اب انسان سے تقریبات کا حق بھی چھین لیا گیا ، اسے سماجی فاصلہ رکھنے پر مجبور کردیا گیا ہے ۔ بار بار کہا جارہا ہے کہ کورونا دنیا سے ختم نہیں ہوگا بلکہ بار بار ابھرے گا ۔ یہ جرثومہ اپنی شکل تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس لیے اس کے لیے ہر بار نئی ویکسین لگانی پڑے گی ۔ پوری دنیا کو محفوظ رکھنے کے لیے ویکسین کا ریکارڈ رکھنا پڑے گا اور اس ریکارڈ کے لیے ہر فرد کے ہاتھ میں نینو چپ RFID لگانی پڑے گی ۔ ابھی سڑکوں پر لگے کیمرے اور کمپیوٹر کی مصنوعی ذہانت اس قابل نہیں ہوئی ہے کہ مجمع میں سے کسی فرد کی درست نشاندہی کرسکے تو اس کے لیے سماجی فاصلے کو لازمی قرار دے دیا گیا ہے ۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک تحقیقی مقالے کے ذریعے یہ قرار دیا گیا ہے کہ چونکہ آئندہ کئی برسوں تک کورونا کا علاج دریافت ہونے کی امید نہیں ہے اس لیے سماجی فاصلے کے اصول پر کم از کم آئندہ دو برسوں تک عمل جاری رکھا جائے ۔ اس کا مقصد صرف اور صرف ایک فرد کی نقل و حرکت کی جزئیات پر اس وقت تک نگاہ رکھنا ہے جب تک اس کے جسم میں RFID نصب نہ کردی جائے ۔
چین میں پہلے سے ہی انسان کے چہرے کی شناخت کرنے والے کیمرے سڑکوں اور گلیوں میں نصب ہیں ۔ یہ کیمرے اتنے اپ ڈیٹ ہیں کہ اگر کسی انسان نے چہرے پر ماسک لگایا ہوا ہو تو بھی یہ شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ کچھ اسی طرح کے کیمروں کو اب ماسکو اور پھر پورے روس میں بھی نصب کیا جارہا ہے ۔ پاکستان میں جگہ جگہ سڑکوں پر جو سرویلنس کا نظام لگایا گیا ہے اور اس کے لیے بین الاقوامی فنڈز فراہم کیے گئے ہیں ، یہ یونہی نہیں لگادیے گئے ہیں ۔ اس کی وجہ صرف اور صرف فرد کی نقل و حرکت کو نگاہ میں رکھنا ہے ۔ افریقا جیسے براعظم میں جہاں پر لوگوں کو بھوک اور خانہ جنگی کی نذر کردیا گیا ہے ، وہاں پر بھی ڈیجیٹل آئڈنٹی فکیشن پروگرام پر دن رات کام جاری ہے ۔ افریقا میں ڈیجیٹل آئڈنٹی فکیشن پروگرام کی اسپانسرڈ وہی تنظیمیں ہیں جو دنیا میں ویکسین کی آڑ میں RFID کی تنصیب کے لیے فنڈز فراہم کررہی ہیں ۔ کبھی موقع ملے تو ID2020 ، RFID ، Digital Identification Program in Africa ، Corona Hoax جیسے الفاظ کو انٹرنیٹ پر سرچ کیجیے گا ۔ اس سے آپ کو ازخود بہت کچھ جاننے کا موقع ملے گا ۔ یہ یاد رکھیے کہ علم انبیاء کی میراث ہے اور شیطان کا پہلا حربہ ہی لاعلم رکھنا ہے ۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش۔