سکھر،تاجرتنظیموں کا مکمل لاک ڈائون ختم نہ کرنے پر ناراضی کا اظہار

189

سکھر( نمائندہ جسارت)مختلف تاجر تنظیموں کی جانب سے مکمل طور پر بازار کھولنے کی اجازت نہ دینے پر سخت ناراضگی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ بازار کھولنے کی دھمکیاں دینے کے حوالے سے کیے گئے ایک سروے میں لوگوں کی بڑی تعداد نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ جو تاجر دکانوں کو مکمل طور پر کھولنے کے لیے حکومت وقت کو دھمکیاں لگارہے ہیں، در اصل ان میں سے بیشتر تاجر موقع غنیمت جان کر خود ساختہ مہنگائی کا طوفان برپا کرنے کی پلاننگ کیے ہوئے ہیں، کیونکہ پہلے ہی شہروں میں پرائز کنٹرول کمیٹیاں اور ضلعی انتظامیہ مکمل طور پر فیل ہوچکی ہیں، یا اب تک کھلی ہوئی دکانوں پر فروخت ہونے والی اشیا کے نرخوں پر کسی قسم کا ایکشن لینے کے بجائے مسلسل چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہیں ، لہٰذا انتظامیہ کے رویے اور کمزور حکمت عملی کو دیکھتے ہوئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ تاجر تنظیموں کے پریشر میں آنے کے بعد اگر بڑے شہروں کے تمام بازار کھول دیے گئے، تو ان دکانداروں میں سے ایک بڑی تعداد دکانوں پر آنے والے گاہکوں کے سامنے مختلف قسم کے ڈرامے رچاکر چند ہفتوں سے جاری لاک ڈائون کی آڑ لے کر اور کورونا وائرس کے بارے میں مختلف قسم کی بے تکی اور جہالت پر مبنی باتیں کرکے دکانوں میں پہلے سے پڑے ہوئے سامان و دیگر اشیا کو فروخت کرتے وقت مقررہ نرخ سے کئی گنا زیادہ نرخ وصول کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے اور بعض تاجروں کی کوشش ہوگی کہ چند ہفتے لاک ڈائون رہنے کا نقصان اگلے چند دنوں میں پورا کرلیا جائے اور مختلف ہیلے بہانے اور حکومتوں پر الزامات لگاکر گاہکوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھایا جائے۔ سروے کے دوران اکثریت کا کہنا تھا کہ بازار مکمل طور پر کھولنے سے بے تحاشا رش پیدا ہوجائے گا۔ جس میں کورونا کے حوالے سے کسی بھی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ناممکن ہوگا۔سروے کے دوران لوگوں نے شکایت کی کہ اس وقت بھی جنرل اسٹور، میڈیکل اسٹور، فروٹ اور سبزی کی دکانوں کے مالکان مختلف حربے جن میں سامان کی سپلائی کمی کا سب سے بڑا بہانہ استعمال کرکے مقررہ نرخوں سے زائد وصول کرنے میں مصروف ہیں۔ مگر پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور ضلعی انتظامیہ کے ذمے داران عوام کو ان دکانداروں کے ہاتھوں لٹتے ہوئے دیکھ کر بھی مسلسل چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور کورونا وائرس کی وبا سے خوف کے مارے لوگ دکانداروں کے ہاتھوں روز لوٹے جارہے ہیں، تاہم فی الحال بازاروں کو مکمل طور پر کھولنے کا کوئی جواز نہیں ، کیونکہ جو تاجر تنظیمیں یا بڑے بڑے تاجر حضرات بازاروں کو مکمل کھولنے پر بضد ہیں، ان میں سے 95 فیصد تاجروں کی اکثریت انتہائی امیر اور پیسے والے لوگوں کی ہے، جن کے پاس کاروبار بند ہونے کی صورت میں بھی بینکوں اور گھروں میں کثیر سرمایہ مختلف شکلوں میں موجود رہتا ہے۔ لہٰذا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بعض تاجروں کے سامنے بلیک میل ہونے کے بجائے کورونا وائرس سے بچائو کے لیے بنائے گئے قوائد و ضوابط پر سختی سے عملدرآمد کرنا چاہیے اور ہر علاقے کی انتظامیہ کو پابند کریںکہ وہ اب تک کھلی ہوئی مختلف دکانوں کے مالکان کو طے شدہ نرخوں پر اشیا فروخت کرنے کا پابند بنائیں۔ سروے کے دوران لوگوں کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم ہر مرتبہ قوم سے خطاب میں ذخیرہ اندوزوں اور بہت زیادہ منافع وصول کرنے والوں کے خلاف بڑے اور سخت ایکشن کے اعلانات کرتے ہیں۔مگر گزشتہ بیس روز کے دوران ابھی تک تمام معاملات حکومتی اعلانات کے برعکس چل رہے ہیں جس کا خمیازہ عوام بھگتنے پر مجبور ہیں۔