جام کمال پھر نشانے پر

611

ان سطور میں بہت پہلے لکھا جا چکا ہے کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال خان عالیانی متحدہ حزب اختلاف، حکومتی اتحادیوں سے زیادہ اپنی جماعت کے پارلیمنٹرینز سے پریشان ہیں۔ ان کے لیے مشکلات پیدا کی جاتی ہیں۔ کبھی اسپیکر عبدالقدوس بزنجو تحریک عدم اعتماد کا شوشا چھوڑتے ہیں، تو کبھی کوئی وزیر اور رکن اسمبلی ناراض ہو جاتا ہے۔ جام کمال با صلاحیت اور محنتی انسان ہیں۔ وہ جتنی بھی صلاحیتوں اور اہلیت کے حامل ہوں جب تک اچھی ٹیم اور اچھے ساتھی دستیاب نہ ہوں کام نہیں کر سکیں گے۔ گویا سیاست کی مروجہ برائیاںجام کمال خان کے آڑے ہیں۔ اور پھر سچی بات یہ بھی ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی(باپ) بادشاہ گروں کی جماعت ہے، جو بنوائی گئی ہے۔ یقینا اس جماعت سے وابستہ پارلیمنٹرینز اپنی اپنی ترجیحات اور اسٹیک کے تحت شامل ہوئے ہیں۔ گویا انہیں صوبے اور عوام سے زیادہ ذاتی، خاندانی اور علاقائی سیاسی مفادات عزیز ہیں۔ چناں چہ حکومت اگر ناکام ہوتی ہے تو یہی سمجھا جائے گا کہ نظام اور حکومتوں کی اصلاح کا بیٹرہ اٹھانے والے ہی ناکام ہوگئے۔ غرض جام کمال ایک مرتبہ پھر بلوچستان عوامی پارٹی کی صفوں سے مخالفت اور اختلافی نقطہ نظر کا سامنا ہے۔
13اپریل کو اس جماعت کے تین ارکین اسمبلی صوبائی وزیر واسا اینڈ پی ایچ ای نور محمد دمڑ، صوبائی وزیر لائیو اسٹاک مٹھا خان کاکڑ، صوبائی وزیر صنعت و تجارت محمد خان طور اتمانخیل، صوبائی مشیر سردار مسعود لونی اور رکن اسمبلی لیلیٰ ترین نے باہم موقف اختیار کیا کہ وزیر اعلیٰ کی جانب سے ان کے حلقے نظر انداز کیے گئے ہیں۔ ان پارلیمنٹرینز نے مطالبات کا مسودہ وزیر اعلیٰ جام کمال خان کو ارسال کیا۔ جس میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ حکومتی سطح پر کورونا وائرس سے متعلق ہونے والے اقدامات اور ترقیاتی منصوبوں میں ان کے حلقوں کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ پارٹی کے اندر گروپ یا علیحدگی نہیں چاہتے۔ بلکہ اپنے خدشات، تحفظات اور مسائل سے پارٹی سربراہ اور وزیر اعلیٰ جام کمال خان عالیانی کو آگاہ کیا گیا ہے۔ یہ مسئلہ ابھی حل نہ ہو سکا تھا کہ 13اپریل کو سریاب روڈ کے مگسی ہائوس میں بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے دیگر اراکین اسمبلی کے درمیان بھی ایک نشست ہوئی۔ صوبائی وزیر ایریگیشن نوابزادہ طارق مگسی نے صدارت کی۔ پارلیمانی سیکرٹری میر سکندر عمرانی اور وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے لیبر اینڈ مین پاور، محمد خان لہڑی شریک ہوئے۔ یہاں نصیر آباد ڈویژن سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کو ایک پیج پر لانے کی پالیسی پر غور ہوا۔ حکومت یعنی وزیر اعلیٰ کی جانب سے نظر انداز کیے جانے اور گلے شکوے دہرائے گئے۔ اس اجلاس میں مربوط حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہاں یہ بھی بتایا گیا کہ سینئر سیاستدان سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان، رکن اسمبلی جان محمد جمالی، تحریک انصاف کے رکن اسمبلی میر نصیب اللہ مری اور باپ پارٹی ہی کی ربابہ بلیدی کو ساتھ دینے کے لیے بات کی جائے گی۔ محمد خان لہڑی کے پاس تعلیم کا قلمدان تھا جووزیر اعلیٰ نے تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کو دے دیا۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے میر نصیب اللہ مری کے پاس صحت کا قلمدان تھا۔ جن سے وزارت لے کر وزیر اعلیٰ بلوچستان نے قلمدان اپنے پاس رکھ لیا۔ بقول میر سکندر عمرانی کے وہ صوبائی وزراء نور محمد دمڑ، مٹھا خان کاکڑ، سردار مسعود لونی اور طور اوتمانخیل کو بھی ساتھ شریک کریں گے۔ گویا اس مشکل اور پریشانی کے عالم میں کہ جب پاکستان سمیت پوری دنیا کورونا وائرس کا سامنا ہے۔ اور بلوچستان پہلے ہی کٹھن اور مساعد حالات سے دوچار ہے۔ ایسے میں سیاسی بحران کے منفی اثرات صوبے اور عوام پر مرتب ہونا یقینی ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ ان وقتوں میں سب یکسو ہو کر درپیش آزمائش سے نمٹنے کی جدوجہد کی جائے۔ سیاست کے لیے سازگار ماحول دیکھنا چاہیے۔ وزیر اعلیٰ جام کمال کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہمہ وقت پارٹی کے اندر اور حکومت میں شریک اراکین کے مسائل اور تحفظات پر توجہ دیں، اعتراض و اختلاف کا ماحول بننے نہ دے۔ ضروری ہے کہ دسترس کے حامل حلقے بھی کسی کو انتشار و افتراق پیدا کرنے کی اجازت نہ دیں۔ بہ فرض محال وزیر اعلیٰ تبدیل ہو بھی جاتا ہے، تو سوال یہ ہے کہ آنے والا کیا تیر مار لے گا۔ بلاشبہ اسٹیس کو ہی رہے گی۔ یا یہ ہو گا کہ سب ٹھیک ٹھیک حصہ پانے پر قادر بن جائیں گے۔ یقینا کئی پہلوئوں سے جام کمال خان کے ہاتھ پیر بندے ہوئے ہیں۔ مصلحتیں نہ ہوں تو وہ دھونس اور دبائو کی سیاست کرنے والوں سے نمٹ سکتے ہیں۔
دریں اثناء 13اپریل 2020ء بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس عبداللہ بلوچ پر مشتمل بینچ نے معاونین خصوصی ایکٹ 2018 کو کالعدم قرار دے دیا۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق وزیر اعلیٰ کے معاونین خصوصی کی تعیناتی آرٹیکل 130کے سب سیکشن 11کے تحت غیر آئینی ہے۔ وزیر اعلیٰ صرف پانچ مشیر مقرر کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ عدالت نے وزیر اعلیٰ کے معاونین خصوصی کو تنخواہوں کے علاوہ دیگر تمام مراعات واپس کرنے کا حکم دیا۔ یاد رہے کہ بلوچستان حکومت نے آغا شکیل درانی، نوابزادہ عمر فاروق کاسی، اعجاز سنجرانی، کیپٹن (ر) عبدالخالق اچکزئی، رامین محمد حسنی اور حسنین ہاشمی کی بطور معاون خصوصی برائے وزیر اعلیٰ بلوچستان تقرر کیا تھا۔ عدالت عالیہ بلوچستان کا یہ فیصلہ درست ہے۔ معاون خصوصی کا تقرر حکومت میں شامل جماعتوں کو نوازکر سرکاری خزانے پر غیر ضروری بوجھ ڈالا گیا۔