ملازمت سے برطرفی برخواستگی بے دخلی اور چھانٹی ،مقدمات کی سماعت کا اختیار لیبر کورٹ کا ہے ناکہ این آئی آر سی کا ،سندھ ہائی کورٹ

441

عدالتِ عالیہ سندھ کے ایک ڈویژن بنچ نے قرار دیا ہے کہ انفرادی نوعیت کے مقدمات کی سماعت کا اختیار لیبر کورٹ کو ہی ہے۔ خواہ ادارہ بین الصوبائی ہی کیوں نہ ہو۔ تفصیلات کے مطابق میسرز رجبی انڈسٹریز کی جانب سے دائر کردہ دو آئینی درخواستیں D-3786 بنام سجاد علی و دیگر اور2015، D-3787 بنام رحیم داد و دیگر نمٹاتے ہوئے مندرجہ بالا فیصلہ کیا گیا۔ ڈویژن بنچ جسٹس محمد شفیع صدیقی اور جسٹس عدنان اقبال چودھری پر مشتمل تھا۔ جسٹس محمد شفیع صدیقی نے فیصلہ لکھا کہ درخواست گزار سندھ لیبر کورٹ نمبر 1 کے حکم مورخہ 23-09-2008 اور سندھ لیبر اپیلٹ ٹریبونل کے فیصلے مورخہ 23-05-2015 سے متاثرہ ہیں اور یہ آئینی درخواستیں اس بنیاد پر دائر کی گئی ہیں کہ لیبر کورٹ اور ٹریبونل کو اس مقدمہ میں کوئی بھی فیصلہ کرنے کا اختیار نہ تھا کیوں کہ ہمارا ادارہ ایک بین الصوبائی ادارہ ہے۔ اس نقطے پر درخواست گزار کے وکیل نے ہماری توجہ IRA-2012 کی دفعہ (xxxii) 2 اور (xxxiii) 2 کی طرف مبذول کرائی۔ فاضل وکیل نے IRA-2012 کی دفعہ 54 اور 57 پر انحصار کیا جن میں کمیشن (NIRC) کے طریقہ کار اور اختیارات کو واضح کیا گیا ہے۔ ان دفعات پر انحصار کرتے ہوئے درخواست گزار کا موقف ہے کہ چونکہ معاملہ کمیشن (NIRC) کے دائرہ اختیار سے متعلق ہے۔ لہٰذا دو عدالتوں یعنی لیبر کورٹ اور لیبر اپیلٹ ٹریبونل کی جانب سے دائرہ اختیار کا استعمال انصاف نہیں ہے۔ دوسری طرف جوابدار ورکروں کے فاضل وکیل نے موقف اختیار کیا کہ پہلے کبھی بھی درخواست گزار نے اپنی اس حقیقت کو ظاہر نہیں کیا کہ وہ بین الصوبائی ادارہ ہے۔ مقدمے کا دفاع پہلے لیبر کورٹ میں کیا گیا جہاں درخواست گزار یہ قانونی نقطہ پیش کرنے میں ناکام رہے اور اسی طرح ٹریبونل کے سامنے بھی کوئی نقطہ اعتراض نہیں اُٹھایا گیا۔ جہاں تک مورخہ 24-09-2019 کو کچھ دستاویزات اضافی طور پر پیش کردینے کا تعلق ہے تو یہ اجتماعی سودے کار ایجنٹ سے متعلقہ دستاویزات ہیں اور یہ سرٹیفکیٹ ٹریڈ یونین سے متعلق ہیں نا کہ درخواست گزار سے متعلق اور ایسے سرٹیفکیٹ اس بات سے غیر متعلق ہیں کہ ادارہ بین الصوبائی ہے یا نہیں۔ ہم نے فاضل وکلاء کو سنا اور ریکارڈ کا بغور معائنہ کیا۔ ابتداً ہمیں یہ سمجھنا پڑے گا کہ قانون کے مطابق ’’صنعتی تنازعہ‘‘ کیا ہوتا ہے۔ ’’صنعتی تنازعہ‘‘ کی تعریف IRA-2012کی دفعہ (xvi) 2میں کی گئی ہے جس کا مطلب ہے کوئی بھی تنازعہ یا اختلاف جو آجر اور اجیر کے درمیان ہو یا آجر اور ورکر کے درمیان ہو یا ورکر اور ورکر کے درمیان ہو۔ اور ورکر جو کہ ملازمت ہونے یا نہ ہونے سے متعلق ہو یا شرائط ملازمت سے متعلق کام کے حالاتِ کار سے متعلق ہو خواہ وجہ کوئی بھی ہو۔ کمیشن (NIRC) کے طریقہ کار کی وضاحت IRA-2012 کی دفعہ 54 میں کی گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی حدود میں صنعتی تنازعہ کا تصفیہ کیا جائے۔ جس میں بین الصوبائی ادارے کی ٹریڈ یونین یا ایسے اداروں کی ٹریڈ یونین کی فیڈریشن فریق ہو اور جو کہ کسی طرح بھی مقامی نوعیت کا معاملہ نہ ہو اور کوئی ایسا صنعتی تنازعہ جو قومی حکومت سے متعلق ہو اور دفعہ 54 کے تحت اسے یعنی کمیشن کو بھیجا گیا ہو اسی طرح IRA-2012 کی دفعہ (2)57 کمیشن (NIRC) کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ یعنی کمیشن فوجداری مقدمات یا سول مقدمات چلائے یا کسی بھی لیبر عدالت سے کوئی بھی مقدمہ، درخواست یا اپیل واپس لے لے جو ناروا مزدور کارروائی سے متعلق ہو اور کمیشن (NIRC) کے دائرہ اختیار میں آتا ہو اور IRA-2012 کی دفعہ (b) (2) 57 اور (c) (2) 57 کے تحت کمیشن (NIRC) کا اختیار ہے کہ وہ ایسے مقدمات میں جو مناسب سمجھے حکم جاری کرے بمع کسی عبوری حکم کے ماسوائے IRA-2012 کی دفعہ 4 کے۔ جس کے تحت کسی بھی لیبر کورٹ یا لیبر اپیلٹ ٹریبونل کسی ایسے معاملے/ درخواست/ مقدمے میں کوئی کارروائی نہیں کرے گا جو کمیشن (NIRC) کے دائرہ اختیار میں آتا ہو۔ اب متذکرہ بالا نقطہ جو کہ اس آئینی درخواست میں شامل ہے سمجھ میں آتا ہے اور یہ ناروا مزدور کارروائی ہے جسے کمیشن نے طے کرنا ہے۔ صنعتی تنازعہ کی تعریف جو قانون میں دی گئی ہے کو آجر اور اجیر کے درمیان کوئی تنازعہ، ورکر اور ورکر کے درمیان کوئی تنازعہ جو کہ ملازمت یا شرائط ملازمت سے متعلق کوئی متنازعہ ہو۔ موجودہ مقدمے میں کوئی بھی درخواست ایسی موجود نہیں ہے جس میں مذکورہ بالا تعریفات میں سے کسی ایک کو بھی بنیاد بنایا گیا ہو جبکہ ورکروں کی ملازمت اسٹینڈنگ آرڈرز کی دفعہ (3) 12 کے تحت ختم کی گئی اور کوئی صنعتی تنازعہ بھی زیر غور/ التوا نہیں تھا۔ آجر کا خیال صرف یہ تھا کہ ورکروں کو برطرف کردیا جائے جو یقینا اسٹینڈنگ آرڈرز کے تحت ہی ہوسکتا ہے۔ اس مقدمے میں ایک جوابدار گیٹ کیپر جبکہ دوسرا لوڈر تھا اسٹینڈنگ آرڈرز 1968ء کے آرڈر نمبر (3) 12 کے تحت ملازمت سے برطرف کیے گئے، لہٰذا یہ کوئی صنعتی تنازعہ نہیں ہے جو کمیشن (NIRC) کے دائرہ اختیار میں آتا ہو۔ لہٰذا IRA-2012 کی دفعہ 54اور 57 کے تحت ایسے مقدمات کی سماعت کا اختیار کمیشن (NIRC) کو نہیں ہے۔ ان دفعات کے دیے گئے اختیارات اس سے پہلے کمیشن (NIRC) کو IRO-1969 میں بھی حاصل تھے۔ IRA-2012 کی دفعہ 54 اور 57 کی موجودگی میں عدالت عظمیٰ پاکستان نے ایک مقدمہ پاک عرب ریفائنری بنام محمد راشد 1999-SCMR-373 میں یہ قرار دیا ہے کہ اگر سیکورٹی گارڈ کو آجر کی حکم عدولی پر برطرف کیا گیا ہو تو متاثرہ فریق معاملے کو لیبر کورٹ لے جاسکتا ہے چونکہ یہ معاملہ بھی برطرفی، چھانٹی، برخاستگی، بے دخلی، یا اسٹینڈنگ آرڈر کی حکم (3) 12 سے متعلق ہے اور چونکہ وہ اس قانون کے مطابق ورک مین ہے جہاں تک جوابدار ورکرز کے ورک مین ہونے کا سوال ہے فریقین کے درمیان اس معاملے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جوابدار ورکروں کی ملازمت جو کسی بھی صنعتی تنازعہ کے تناظر میں ختم نہیں ہوتی۔ لہٰذا ان کا حق ہے کہ وہ اپنی شکایت کے ازالے کے لیے (3) 12 کے تحت لیبر کورٹ سے رجوع کریں۔ یہ نقطہ مستقیم کریسنٹ لمیٹڈ بنام عبدالرشید 1998-PIC-172 میں بھی طے کیا گیا ہے۔ لہٰذا درخواست گزار کوئی ایسا موقف پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کے تحت سندھ لیبر کورٹ نمبر 1 اور سندھ لیبر اپیلٹ ٹریبونل کے فیصلوں میں کوئی مداخلت کی جاسکے۔ لہٰذا دونوں آئینی درخواستوں کو مورخہ 30 اکتوبر 2019ء کے ایک مختصر حکم کے تحت خارج کیا گیا تھا اور اب یہ تفصیلی فیصلہ بمع وجوہات بھی جاری کردیا گیا ہے۔ جوابدار ورکروں کی پیروی ایڈووکیٹ رفیع اللہ نے کی جبکہ کمپنی کی پیروی ایڈووکیٹ مان اللہ خان نے کی۔