لاہور(نمائندہ جسارت)امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سرا ج الحق نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وزیراعظم سمیت وزرا اور مشیروں کو مستحقین میں امداد کی تقسیم کا آغاز اپنی دولت سے کرنا چاہیے او ر کم از کم اپنی10فیصد دولت کورونا فنڈمیں جمع کرانی چاہیے۔ وزیراعظم اور وزرا کو اس نیکی کے کام کاآغاز اپنی ذات سے کرنا چاہیے۔بہتر ہوتا وزیراعظم اپنی 30 مارچ کی تقریر کے موقع پر ہی اپنی طرف سے عطیے کا اعلان کردیتے۔اب ملک و قوم کے لیے قربانی کا وقت ہے۔70سال سے اقتدار میں رہنے والے جاگیرداروں ، وڈیروں اور سرمایہ داروں کو اس سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ اتنے بڑے اسکینڈل کے بعد بھی حکومت نے صرف وزرا کے محکموں کو تبدیل کیا ہے۔یہ چند چاول ہیںجنہیں دیکھ کر پتا چل گیا ہے کہ حکومت کی ساری دیگ ہی ایسی ہے۔پاکستان کا المیہ ہے کہ لوگ پیسے کے بل بوتے پر سیاست میں آتے ہیں اور پھر سیاست کو پیسہ بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اب اصل فیصلہ پاکستان کے عوام کو کرنا ہے کہ کیا وہ 73سال سے اقتدارپر مسلط پارٹیوں کے چنگل میں ہی پھنسے رہیں گے ۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ وزیراعظم کو سب سے پہلے اپنی پارٹی کے ارکان صوبائی و قومی اسمبلی اور سینیٹ سے کورونا فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالنے پر آمادہ کرنا چاہیے۔حکومت سے امداد اور سبسڈی لے کر اپنے کارخانے اور فیکٹریاں چلانے والوں کو اس طرف راغب کر ناچاہیے۔قومی و صوبائی اسمبلیوں سے امیروں پرٹیکس لگانے اور غریبوں کو ٹیکس میں چھوٹ دینے کے حوالے سے قانون سازی کی جائے۔انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ حکومت تنہا اس وبا سے لڑنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔حکومت کا فرض ہے کہ وہ پوری قوم خاص طور پر اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلے اور ایک قومی جذبے اور اتفاق رائے سے اس بیماری سے بچائو کے لیے لائحہ عمل بنایا جائے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ سیاسی گروہ بندی کو فروغ دینے کے بجائے افہام و تفہیم کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھائے۔حکمران اپنی اناکے بت کو توڑیں،تنہا پرواز دانشمندانہ روش نہیں۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ مستحقین تک امدادی رقوم پہنچانے کا بہترین ذریعہ سرکاری ادارے ہیں۔کسی سیاسی فورس کے ذریعے غیر جانبداری کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔12ہزار روپے کا امدادی پیکج جو 3،3 ہزار کی اقساط میں 4 ماہ میں مکمل ہوگا اتنی کم رقم میں کسی کا گزارا نہیں ہوگا۔حکومت کو کم از کم 15ہزار روپے ماہانہ دینے چاہئیں تاکہ ایک متوسط گھرانے کے لیے کھانے پینے کی اشیا خریدی جاسکیں۔انہوں نے کہا کہ کم آمد ن اورغربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کا ایک ڈیٹا بیس حکومت کے پاس ہونا چاہیے۔وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر اس کا ڈیٹا تیار کریں اور قومی سطح پر امدادی فنڈ کی تقسیم کا فارمولا طے کرکے اس پر عمل درآمد کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں آٹے اور چینی کا بحران دوبارہ سر اٹھا رہاہے۔حکومت فوری طور پر اس طرف توجہ دے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرے اور آٹے چینی گھی دالوں اور چاول کی فراہمی کو یقینی بناتے ہوئے ان کی قیمتوں پر عوام کو 50فیصد سبسڈی دی جائے۔