وفاقی حکومت کورونا کیخلاف کچھ نہیں کررہی ،چیف جسٹس

125

اسلام آباد(خبر ایجنسیاں) عدالت عظمیٰ نے کورونا وائرس کے معاملے پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتان، چمن اور طورخم بارڈر پر دو ہفتوں میں قرنطینہ مراکز قائم کرنے کا حکم دے دیا۔عدالت عظمیٰ میں انڈرٹرائل قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کے معاملے کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں5 رکنی بینچ نے کی۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کیسی ہیلتھ ایمرجنسی ہے کہ ملک بھر کے اسپتال بند کر دیے، شوگر اور امراضِ قلب کے مریض کہاں جائیں؟انہوں نے کہا کہ کورونا کے علاوہ تمام مریض اللہ کے آسرے پر چھوڑ دیے؟ کوئی حکومت ڈیلیور نہیں کررہی، سب کو پیسے کی پڑی ہے۔اٹارنی جنرل آف پاکستان نے چیمبر میں سماعت کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ پتا ہے آپ چیمبر میں کیا بتائیں گے، یہ نہیںپتا کہ ظفر مرزا کی کوالی فکیشن کیا ہے ؟ وہ صرف ٹی وی پر پروجیکشن کرتے ہیں۔وفاق کی رپورٹ واضح کر رہی ہے کہ وفاق کچھ نہیں کر رہا۔ کے پی اور سندھ حکومتیں صرف پیسا مانگ رہی ہیں کام نہیں کر رہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کے پی میں جاری ہونیوالے 500 ملین روپے آپس میں بانٹ لیے گئے۔چیف جسٹس نے حکم دیا کہ پارلیمنٹ کے ذریعے حکومت معاملات حل کرے جبکہ تفتان، چمن اور طورخم بارڈر پر 2 ہفتوں میں قرنطینہ مراکز قائم کیے جائیں۔سماعت کے آغاز پر وزارت قانون نے انڈر ٹرائل قیدیوں کے حوالے سے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی جس میں وزارت نے انڈر ٹرائل قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کی مخالفت کی۔دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے کورونا کے معاملے پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور ریمارکس دیے کہ یہ کس قسم کی ایمرجنسی ہے کہ تمام اسپتال بند ہیں، پورے ملک میں پرائیویٹ کلینک بھی بند ہیں، گرائونڈ پر کیا ہورہا ہے، کسی کو علم نہیں، کوئی بندہ کام نہیں کررہا، سب فنڈز کی بات کررہے ہیں، شوگر اور امراض قلب کے مریض کہاں جائیں؟ عوام کو خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کو ٹی وی پر بتایا جارہا ہے کہ گھر سے نہ نکلیں اور ہاتھ 20 بار دھوئیں، صوبائی حکومتیں پیسے بانٹ دو اور راشن بانٹ دو کی باتیں کررہی ہیں، ٹی وی صبح سے شام تک لوگوں کو ڈرا رہا ہے، تمام چیف منسٹر گھروں سے آرڈر دے رہے ہیں اور گراؤنڈ پر کچھ نہیں ہورہا ہے۔جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ صوبوں کے پاس ٹیسٹ کے لیے کٹس ہی موجود نہیں، صوبے کہہ رہے ہیں 10 ارب دے دو،گلوز اور ماسک لینے ہیں، سب کاروبار بندکردیے گئے، ہمارا ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔اس دوران اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے چیمبر میں بریفنگ کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چیمبر میں آپ کیا بتائیں گے، ہمیں سب پتا ہے۔چیف جسٹس نے مزید کہاکہ پتا نہیں ظفر مرزا صاحب کی کیا کوالیفکیشن ہے، وہ صرف ٹی وی پر پروجیکشن کرتے ہیں، ہمیں احساس ہے کہ امریکا جیسا ملک بھی ہلا ہوا ہے، ہم کورونا اسپیشلسٹ نہیں بلکہ ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ شہریوں کے آئینی حقوق کا دفاع ہورہا ہے یا نہیں، ہر ایک اسپتال اورکلینک لازمی کھلارہنا چاہے، وزارت ہیلتھ نے خط لکھا کہ سپریم کورٹ کی ڈسپنسری بند کی جائے، کیوں بھائی یہ ڈسپنسری کیوں بند کی جائے؟ کیا اس طرح سے اس وبا سے نمٹا جارہا ہے۔معزز چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ وفاق کے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں، وفاق تو کچھ کرہی نہیں رہا، آپ نے جو رپورٹ جمع کرائی ہے یہ اس بات کو واضح کررہی ہے۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ حکومت لوگوں کو پیسے لینے کا عادی بنا رہی ہے، جیسے اسٹیل مل میں 15سال سے لوگ بغیر کام تنخواہیں، مراعات، ترقیاں لے رہے ہیں، پی آئی اے بھی ایسے ہی چل رہا ہے، شپ یارڈ بھی ایک کشتی تک نہیں بنا رہا لیکن تنخواہیں سب لے رہے ہیں، اب تو ایک چھوٹی سی کشتی بھی درکار ہو تو چین سے مدد لیتے ہیں۔انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ قرنطینہ میں ایک کمرے میں دس دس لوگ رہ رہے ہیں، دو کمروں کے گھروں میں دس دس لوگ رہتے ہیں، لوگ تین 4 دن شکلیں دیکھیں گے پھر ایک دوسرے کو ہی کھانے لگیں گے، کسی حکومت نے سڑکوں پر اسپرے نہیں کرایا، مختص کیے گئے اربوں روپے کہاں خرچ ہو رہے ہیں کچھ معلوم نہیں، وزرائے اعلی گھر بیٹھ کر احکامات جاری کر رہے ہیں، کل تک عملی اقدامات پر مبنی جامع رپورٹ جمع کرائیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اسلام آباد میں کوئی ایسا اسپتال نہیں جہاں میں جا سکوں، تمام اسپتالوں کی او پی ڈیز بند کردی گئی ہیں، ملک میں صرف کورونا کے مریضوں کا علاج ہورہا ہے، مجھے اپنی اہلیہ کو چیک کرانے کے لیے ایک بہت بڑا اسپتال کھلوانا پڑا، نجی کلینکس اوراسپتال بھی بند پڑے ہیں، یہ ملک میں کس طرح کی میڈیکل ایمرجنسی نافذ کی ہے، ہر اسپتال اور کلینک لازمی کھلا رہنا چاہیے۔