اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

800

ہر فرد کو اپنی جان سب سے زیادہ پیاری ہوتی ہے اور اس کے بعد مال و دولت، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے جان و مال کی قربانی طلب کی ہے۔ ’’اپنی جان سب سے زیادہ پیاری‘‘ کا مسئلہ انسانوں ہی میں نہیں بلکہ جانوروں میں بھی ہے، ایک زمانے میں ایک ڈاکومنٹری آئی تھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ جانوروں میں بندریا کو سب سے زیادہ اپنے بچے سے محبت ہوتی ہے وہ ہر وقت اسے اپنے ساتھ لیے پھرتی ہے، حتیٰ کہ وہ بچہ اگر مر بھی جائے تو اسے پھینکتی نہیں ہے۔ فلم میں دکھایا گیا کہ ایک بڑا شیشے کا جار ہے جس میں ایک بندریا اپنے بچے کو لیے بیٹھی ہے اس جار میں پانی بھرا جارہا ہے جیسے ہی پانی بچے تک آتا ہے وہ بچے کو گود میں لے لیتی ہے، جب پانی اور اوپر آتا ہے تو وہ بچے کو اپنے سر پر رکھ لیتی ہے تاکہ بچہ محفوظ رہے جب پانی اور اوپر آتا ہے اور وہ بندریا کی ناک میں جانے لگتا ہے اور اسے اپنی جان خطرے میں محسوس ہونے لگتی ہے تو فوراً بچے کو نیچے رکھ کر اس کے اوپر کھڑی ہو جاتی ہے یعنی جب اسے اپنی جان کا خطرہ ہوا تو اپنی جان بچانے کی خاطر اپنے بچے کا مرنا گوارہ کرلیا۔
کورونا وائرس کا جو خوف پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے وہ نہ صرف انسانوں کے درمیان فاصلوں کا سبب بن رہا ہے بلکہ ہر فرد کو خود غرض بھی بنارہا ہے۔ احتیاطی تدابیر کے عنوان سے ہم ایک دوسرے سے خوف بھی کھا رہے ہیں کہ ہر شخص یہ کوشش کررہا ہے کہ اگر نارمل کھانسی بھی آئے تو میں سب کے سامنے نہ کھانسوں کہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ آپ ذرا اپنے آپ کو چیک کرالیں اگر کسی کو چھینک آئے تو ہم فوراً دور ہو جاتے ہیں حالاںکہ ہر صحت مند آدمی کو چھینک آتی ہے اور اس کے بارے میں ہمارے نبیؐ نے جو ہدایت کی ہے کہ چھینکنے والا فرد فوراً شکر الحمدللہ کہے اور قریب رہنے والے ساتھی جواب میں یرحمکم اللہ کہیں گے، ان ساتھیوں کے جواب میں چھینکنے والا فرد یھدیکم اللہ کہے گا۔ اس کی جو تفصیل ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ جب کسی کو چھینک آتی ہے تو اس مطلب ہوتا ہے کہ چند لمحوں کے لیے اس کی سانس رک جاتی ہے جو چھینک کے بعد فوری بحال ہوجاتی ہے اس پر وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے، ساتھ بیٹھنے والے ساتھی اس کے لیے رحم کی دعا کرتے ہیں جواب میں چھینکنے والا اپنے ساتھی کے لیے اللہ سے ان کے لیے ہدایت کی دعا مانگتا ہے۔ اس سارے عمل میں آپس کی محبت اور انسیت کا تصور غالب رہتا ہے، اب یہ خوف ہوگیا کہ جس کو چھینک آئے اس کے پاس سے فوراً ہٹ جائو کہ کہیں کورونا کے جراثیم اُڑ کر نہ لگ جائیں حالاںکہ یہ اُڑ کر لگنے والی بیماری نہیں ہے بلکہ چھو کر لگنے والی بیماری ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ جب باہر سے گھر آئو تو پہلے اچھی طرح صابن سے ہاتھ دھو لو۔
اب تو لوگ اتنی احتیاط برت رہے ہیں کہ اگر انہیں ذرا سا نزلہ اور کھانسی کی شکایت ہوئی انہوں نے خود کو اپنے گھر کے کمرے میں مقید کرلیا اور اپنے گھر کو ہی قرنطینہ بنالیا۔ صوبہ سندھ کے ایک وزیر نے کچھ ایسا ہی کیا جب ان کی کورونا وائرس کے ٹیسٹ کی رپورٹ خلاف توقع مثبت Positive آئی۔ جبکہ ان کا کہنا ہے کہ انہیں ایسی کوئی شکایت نہیں ہوئی جو کورونا وائرس کے ہونے کی نشان دہی کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی کو نزلہ بخار کھانسی کی کیفیت نہ بھی ہو اور وہ بالکل نارمل ہو تو بھی کورونا کا شکار ہو سکتا ہے وہ صوبائی وزیر اب الحمدللہ صحت یاب ہو گئے ہیں۔ اس وبا نے اس وقت پورے ماحول ہی کو تبدیل کردیا ہے۔ اب دور دور سے ہاتھ کے اشارے سے سلام دعا ہوتی ہے، تبلیغی جماعت والے مسجد میں کھڑے ہو کر کہتے تھے کہ قریب قریب آجائیے اب کہا جائے گا کہ قریب قریب آکر ذرا فاصلے سے بیٹھیں ویسے تو اب مسجد میں نماز کی جماعت بھی عام نمازیوں کے بغیر ہو رہی ہے، بس امام مسجد موذن اور خادم پر مشتمل جماعت ہو رہی ہے۔
یہ دور بھی ہمیں اپنی زندگی میں دیکھنا تھا کہ ڈر لگتا ہے اپنے ہی گھر والوں سے، اپنے بچوں سے، رشتہ داروں اور دوستوں سے کہ کسی کے سامنے اگر چھینک بھی آجائے تو فوراً یہ نہ کہہ دیں کہ آپ ذرا ڈاکٹر کو دکھادیں اور یہ بات ہم بھی دوسروں سے کہہ سکتے ہیں اس لیے اب سب ہی ایک دوسرے سے ڈر رہے ہیں۔ کہا یہ گیا کہ پچاس سال سے زائد عمر کے لوگ اور بچے مسجد میں نہ آئیں اب ہمارے یہاں نمازیوں کی اکثریت 50سال زائد کی ہے، اکثر مساجد میں پیش امام بھی پچاس سے زائد عمر کے ہیں میری تجویز ہے کہ مسجد کو بند کرنے کے بجائے امام صاحب خود نمازیوں سے یہ کہیں کہ جن اصحاب کو نزلہ کھانسی ہو یا بخار کی کیفیت ہو تو وہ مسجد میں نہ آئیں تو بہتر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اب ہر گھر میں نماز کی جماعت بن رہی ہے، ویسے ہی ہمارے پیارے نبیؐ کی ہدایت ہے کہ اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنائو اور سنتیں گھر سے پڑھ کر آئیں اور بعد کی بھی گھر جا کر پڑھیں۔