کورونا وائرس سے دنیا پہلی مرتبہ 2002 میں آشنا ہوئی جب severe acute respiratory syndrome نامی بیماری نے چین پر حملہ کیا۔ اس وائرس کو SARS کا نام دیا گیا۔ کورونا کا یہ پہلا حملہ انتہائی شدید تھا۔ اس وائرس کی ہلاکت خیزی کی شرح دس فی صد سے زاید تھی جو بہت خوفناک تھی۔ تاہم دنیا کو اس کی زیادہ خبر اس لیے نہیں ہوئی کہ اس نے صرف چین کو متاثر کیا۔ بلکہ پورا چین بھی متاثر نہیں ہوا۔ چین میں دو بڑی نسلیں رہتی ہیں۔ چین کی سب سے زیادہ آبادی ہان نسل کے چینیوں پر مشتمل ہے جبکہ چین کا جنوبی حصہ ترک نسل کے چینیوں پر مشتمل ہے۔ اسی طرح منگولیا کے ساتھ کا علاقہ منگول نسل کے چینیوں پر مشتمل ہے۔ سارس وائرس نے ترک نسل اور منگول نسل کے چینیوں کو متاثر نہیں کیا جبکہ یہ چین کے شمال میں پھیلا۔ اس کے بعد اس نے چینی نسل کے دیگر علاقوں ہانگ کانگ، سنگاپور اور ویتنام کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا۔ یہ وائرس شمالی امریکا بھی پہنچا مگر کینیڈا و امریکا دونوں ممالک میں اس سے صرف چند سو لوگ متاثر ہوئے مگر ہلاکت ایک بھی نہیں ہوئی۔ شمالی امریکا میں بھی متاثر ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق چینی نسل سے ہی تھا۔ سارس وائرس یا کورونا وائرس کے پہلے ایڈیشن نے دنیا کے دیگر ممالک کو بالکل بھی متاثر نہیں کیا۔ اس طرح سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک نسلی ہتھیار تھا جس نے صرف ایک خاص خطے کے ایک خاص نسل کے لوگوں کو متاثر کیا۔ ہلاکت خیزی کی بڑی شرح کے باوجود اس سے ہلاکتوں کی تعداد محض آٹھ سو کے قریب تھی۔ ایک سال کے بعد یہ وائرس اور اس کا حملہ ازخود ختم ہوچکا تھا اور اس کا ذکر محض طب کی کتب تک ہی محدود رہ گیا تھا۔
کورونا کا دوسرا ایڈیشن 2012 میں سعودی عرب میں سامنے آیا۔ اسے Middle East Respiratory Syndrome کا نام دیا گیا۔ یعنی اس وائرس کو MERS کا نام دیا گیا۔ اس کے 80 فی صد متاثرین کا تعلق سعودی عرب سے تھا جبکہ ملحقہ مشرق وسطیٰ اور دیگر عرب ریاستوں میں بھی اس انفیکشن کے مریض سامنے آئے۔ ہلاکت خیزی کی شرح کے لحاظ سے اسے سب سے زیادہ ہلاکت آفریں وائرس کہا جاسکتا ہے کہ اس میں مرنے والوں کی شرح 34 فی صد تھی۔ 2014 میں کورونا وائرس کا یہ دوسرا ایڈیشن بھی خود ہی ختم ہوچکا تھا۔ اس وائرس کو بھی نسلی ہتھیار کہہ سکتے ہیں کہ اس نے صرف ایک خاص نسل کے لوگوں ہی کو اپنا نشانہ بنایا۔ سعودی عرب میں پوری دنیا سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کی تعداد پورا سال موجود رہتی ہے۔ سعودی عرب میں پوری دنیا سے معتمرین اور حجاج کی آمد کے باوجود اس نے وبائی صورت اختیار نہیں کی۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے علاوہ یہ جرمنی، اٹلی، برطانیہ اور امریکا میں بھی رپورٹ ہوا مگر وہاں پر بھی اس کا نشانہ عرب باشندے ہی تھے۔ ان ممالک میں اس کے متاثرین کی تعداد محض ایک، دو اور چار تھی۔
کورونا وائرس کے دونوں پہلے ایڈیشنوں پر غور کریں کہ اس پر وارننگ ضرور جاری ہوتی رہیں مگر ایک مرتبہ بھی لاک ڈاؤن نہ تو کیا گیا اور نہ اس کی کوئی بازگشت سنائی دی۔ سارس وائرس کے دنوں میں امریکا اور یورپ نے ٹریول ایڈوائزری ضرور جاری کی یعنی اپنے باشندوں کو چین، ہانگ کانگ اور سنگاپور کے سفر سے روکنے کی ہدایت کی گئی مگر نہ تو ان ممالک میں جانے سے جبری روکا گیا، نہ پروازیں معطل کی گئیں اور نہ ہی ان ممالک سے آنے والوں پر پابندی عاید کی گئی۔ نہ ہی ان ممالک سے آنے والوں کی کوئی اسکریننگ کی گئی اور نہ ہی کوئی ٹیسٹ کیے گئے۔ کورونا وائرس کے علاج کے نام پر نہ تو ان علاقوں میں آج تک کوئی ویکسین لگائی جاتی ہے اور نہ ہی یہ مرض ان علاقوں میں دوبارہ ابھرا۔ اب ہمارے سامنے کورونا کا تیسرا ایڈیشن ہے جسے nCoViD19 کا نام دیا گیا ہے۔ کورونا کے ان تینوں ایڈیشنوں میں ان کے پھیلنے، ایک دوسرے سے لگنے اور دیگر افراد کو متاثر کرنے کی صلاحیت ایک جیسی ہے۔
دوبارہ سے تمام معاملات کو دیکھیں کہ کورونا وائرس کے تین ایڈیشن گزشتہ 18 برسوں میں سامنے لائے گئے۔ ان میں سے دو نسلی ہتھیار تھے جبکہ تیسرے میں پوری دنیا کو متاثر کرنے کی اہلیت ہے۔ nCoViD19 کے مقابلے میں پہلے دو وائرس زیادہ ہلاکت خیز تھے مگر اس پر پوری دنیا میں کوئی لاک ڈاؤن نہیں ہوا۔ یہ دونوں وائرس ازخود ختم ہوگئے اور کسی کو ان سے بچاؤ کے لیے ویکیسن لگانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ ایک بات اور سمجھنے کی ہے کہ کورونا وائرس کے دو ایڈیشن سامنے آنے کے بعد دنیا اور خصوصی طور پر چین کو ان کے علاج کا پہلے سے تجربہ تھا۔ اس بات کا دوبارہ اعادہ کہ ویکسین کسی بھی بیماری یا وائرس کا treatment نہیں ہے، یہ بیماری سے prevention ہے۔ اس لیے ہم ویکسین کی بات نہیں کررہے ہیں بلکہ treatment کی بات کررہے ہیں۔ یہ ٹریٹمنٹ therapeutic تھا۔ اس میں صحت یاب ہونے والے مریضوں کے خون کے پلازما سے دیگر مریضوں کا علاج کیا گیا تھا۔
سوالات تو پیدا ہوتے ہیں کہ nCoViD19 میں چین ہی نے کیوں خوف و ہراس پھیلایا۔ یہ طریقہ علاج پہلے کیوں نہیں شروع کردیا گیا۔ سعودی عرب میں جب MERS پھیلا تھا تو انہوں نے اس وقت مقامات مقدسہ کو کیوں نہیں بند کیا اور مساجد کو کیوں تالے نہیں لگائے۔ انہیں اس وقت کس نے بتایا تھا کہ یہ عربوں کے علاوہ دیگر افراد میں نہیں پھیلے گا۔ اس دوران حج بھی ہوا اور مسلسل معتمرین کی آمد بھی جاری رہی مگر ایک مرتبہ بھی کسی نے سعودیوں کو قرنطینہ نہیں کیا کہ ان سے پوری دنیا میں یہ بیماری نہ پھیل جائے۔
گزشتہ بیس برسوں میں صرف SARS، MERS اور اب nCoViD19 ہی سامنے نہیں آئے بلکہ زیکا اور ایبولا جیسے خوفناک اور مزید ہلاکت خیز وائرس بھی سامنے آئے۔ یہ بھی نسلی ہتھیار ہی تھے اور انہوں نے بھی صرف مخصوص نسلوں ہی کو متاثر کیا۔ کورونا کے پہلے دو ایڈیشنوں کی طرح یہ بھی ازخود ختم ہوگئے اور خاتمے کے بعد دوبارہ ابھرے بھی نہیں۔ زیکا کے بارے میں تو میں نے آرٹیکل بھی سپرد قلم کیا تھا کہ کس طرح اسے لیبارٹری میں بنایا گیا اور اسے پھیلایا گیا اور اس کا خاتمہ کس طرح ممکن ہوا۔ یہ آرٹیکل میری ویب سائٹ پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ nCoViD19 دیگر وائرسوں SARS، MERS، زیکا اور ایبولا کی طرح ہلاکت خیز ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر کیا اہداف ہیں کہ اس کے بارے میں ساری حکومتیں، پوری دنیا کا میڈیا، ساری این جی اوز وغیرہ وغیرہ اتنے متحرک ہیں۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔