کورونا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہو یا نہ لیا ہو، مگر اس کے بارے میں پروپیگنڈے نے پوری دنیا کو ضرور اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ ہر شخص کورونا سے خوفزدہ ہے۔ کورونا کا خوف اتنا ہے کہ کورونا کے مریض اسپتال کی بلڈنگوں سے چھلانگ لگا کر خودکشی کررہے ہیں۔ کینیا میں کورونا سے بچنے کی خاطر لوگوں نے ڈیٹول پی لیا جس سے 59 افراد مر گئے۔ یعنی کورونا سے تو شاید ہی مرتے مگر خوف کے ہاتھوں ضرور مارے جارہے ہیں۔ اس خوف کے باعث فضائی رابطے بند، ہرملک کی سرحد بند، ہر شہر کی سرحد بند، لوگ گھروں میں محصور بیت اللہ بند، روضہ رسول بند، ویٹیکن سٹی بند، بیت المقدس بند۔ کورونا کو خوف کی علامت اس قدر بنادیا گیا ہے کہ کورونا کے مرض سے مرنے والے کو غسل دینا تو دور کی بات ہے، اس کی نماز جنازہ میں آنے ہی سے خوفزدہ ہیں۔
کورونا کے بارے میں ایک تصور یہ بھی پیدا کردیا گیا ہے کہ بس کورونا کی ویکسین تیار ہوجائے تو پھر اس سے متعلق تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔ روز اس بارے میں اطلاع دی جاتی ہے کہ فلاں ملک نے اس کی ویکسین تیار کرلی ہے اور اس کے انسانوں پر تجربات شروع کردیے گئے ہیں۔ یہ بات میں گزشتہ آرٹیکل میں بھی واضح کرچکا ہوں کہ ویکسین کسی بھی مرض سے بچاؤ کے لیے لگائی جاتی ہے مگر یہ اس مرض کا علاج نہیں ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کورونا کی ویکسین تیار ہو بھی جائے تو اس کا کہیں سے یہ مطلب نہیں ہے کہ کورونا کا علاج مل گیا۔ ایک دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ کیا کسی بیماری کی ویکسین لگنے سے بندہ اس بیماری سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ بدقسمتی سے اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔ میں بارہا فلو کے اعداد و شمار پیش کرچکا ہوں کہ کورونا کے مقابلے میں فلو مغرب کے لیے زیادہ ہلاکت خیزرہا ہے۔ اس کے جواب میں مجھے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ کورونا اور فلو کا کوئی تقابل نہیں ہے۔ کورونا کے مریضوں میں شرح اموات فلو کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اگر اس دلیل کو مان لیا جائے تو سرطان زیادہ خوفناک ہے کہ دنیا بھر میں مرنے والوں میں ہر چوتھا شخص سرطان کا مریض ہے۔ سرطان کی ہلاکت خیزی کا کسی اور بیماری سے تقابل ممکن ہی نہیںکہ اس میں ہلاکت کی شرح سو فی صد ہے۔ میں فلو اور کورونا کا تقابل اس لیے کرتا رہا ہوں کہ دونوں ہی وائرل انفیکشن ہیں اور دونوں بیماریوں کے وائرس میں ایک فرد سے دوسرے فرد میں لگنے کی استعداد ایک جیسی ہے۔
امریکا، یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں 2018 فلو کے لحاظ سے انتہائی ہلاکت خیز تھا۔ فلو نے پہلی جنگ عظیم کے بعد 1918 میں طوفان برپا کردیا تھا۔ دو سال تک جاری رہنے والی اس وبا نے تقریباً 5 کروڑ افراد کی بھینٹ لی تھی۔ اس وقت کی آبادی کے لحاظ سے یہ تعداد پوری دنیا کی آبادی کا دو فی صد تھی۔ اس کے ٹھیک ایک سو برس کے بعد 2018 میں پراسرار طور پر فلو دوبارہ سے مغرب میں نمودار ہوا اور اس نے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کی بھینٹ لی تھی۔ اس میں سے صرف امریکا میں 80 ہزار افراد موت کا شکار ہوئے۔ امریکا میں فلو سے مرنے والوں کی تعداد چار ہزار افراد فی ہفتہ تھی۔ یہ سب ایسے وقت میں ہوا تھا جب فلو کی ویکسین موجود تھی اور بڑے پیمانے پر پکڑ پکڑ کر لگائی جارہی تھی۔ یہ مغرب اور امریکا میں اسی طرح لگائی جاتی ہے جس طرح سے پاکستان میں پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود 2018 میں فلو سے امریکا میں 80 ہزار افراد کی موت ہوچکی تھی۔ اس برس بھی اب تک فلو سے امریکا میں مرنے والوں کی تعداد کا تخمینہ 23 ہزار سے 59 ہزار کے درمیان لگایا گیا ہے۔
ہر برس فلو سے پوری دنیا میں ساڑھے چھ لاکھ افراد جان سے جاتے ہیں۔ اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ کورونا کی ویکسین دریافت ہونے کے بعد بھی اس سے جان چھوٹنے کی کوئی امید نہیںہے۔ دوسری بات یہ کہ ایک مرتبہ ویکسین لگنے کا کہیں سے یہ مطلب نہیں ہوگا کہ اب آپ کو مزید ویکسین لگوانے کی ضرورت نہیں بلکہ اسے اپنے سالانہ بجٹ میں شامل کرلیجیے۔ کہا جائے گا کہ چونکہ کورونا وائرس تیزی سے اپنی صورت تبدیل کرتا ہے اس لیے اس کی ویکسین ہر برس نئی تیار کرنی پڑے گی اور وہ لگوانی بھی پڑے گی۔
اب چونکہ کورونا کے بارے میں خوف موجود ہے کہ یہ دیکھتے ہی دیکھتے پوری انسانی آبادی کو ختم کرسکتا ہے (حالانکہ ایسا ہے نہیں)، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی اپنی بقاء کی خاطر اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ ہر شخص کو کورونا کی ویکسین لگی ہے کہ نہیں۔ اب اس امر کو کیسے یقینی بنایا جائے کہ دنیا کے ہر شخص کی ویکسی نیشن ہوئی ہے۔ اس کے لیے ڈیجیٹل آئیڈنٹی فکیشن کا پروگرام پہلے سے تیار ہے۔ ڈیجیٹل آئیڈنٹی فکیشن پروگرام ID2020 کے بارے میں اپنے آرٹیکل کورونا اور RFID میں تذکرہ کرچکا ہوں۔ آئندہ آرٹیکل میں، اس بارے میں تفصیل سے ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔