نیا کورونا وائرس کووِڈ۔ ۱۹ قدرتی وائرس نہیں ہے۔ شمالی کیرولینا کے امریکی سائنسدان پروفیسر فرانسس بوئل نے جو حیاتیاتی جنگی ہتھیار سازی کے ماہر بھی ہیں، ایلیکس جونز شو میں حیاتیاتی مہلک ہتھیار سازی کے سلسلے میں کورونا وائرس بنائے جانے کے بارے میں انتہائی خوفناک اور تہلکہ خیز انکشاف کیا ہے کہ یہ وائرس قدرتی وائرس نہیں ہے بلکہ سائنسدانوں نے اسے تخلیق کیا ہے، ہمارے سائنسدانوں نے بھاری رقم کے عوض ایک چینی سائنسداں کو وائرس میں جینیاتی تبدیلی سے متعلق ٹیکنالوجی فراہم کی۔ اس نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ یہ وائرس نہ صرف انسانی تخلیق ہے بلکہ یہ وائرس ایک امریکی لیبارٹری نے چین کو فروخت کیا تھا۔ یہ دعویٰ بین الاقوامی قوانین کے امریکی ماہر اور انسانی حقوق کے عالمی وکیل اور کیمیائی ہتھیاروں کے انسداد دہشت گردی ایکٹ ۸۹ کا مسودہ تحریر کرنے والے پروفیسر فرانسس بوئل کی جانب سے کیا گیا ہے۔ اس ایکٹ کو امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں منظور کیا گیا تھا اور اس پر اس وقت کے صدر جارج ڈبلیو بش نے دستخط کیے تھے۔
جس میں ووہان کی تجربہ گاہ میں جینیاتی تبدیلی کے ذریعے اسے مہلک بنانے کا تجربہ کیا جارہا تھا جس کا مقصد اسے ایک جنگی ہتھیار کے طور پر محفوظ کرنا تھا لیکن اسے محفوظ کرنے کے عمل میں چوک ہوگئی اور بداحتیاطی سے اس پر قابو نہ پایا جاسکا اور یہ وائرس آپے سے باہر ہوگیا اور اب تک ۱۱ ہزار ۲ سو اکہتر (۱۱۲۷۱) سے زیادہ بے گناہ انسانوں کی جان لے چکا ہے۔ تقریباً ڈھائی لاکھ افراد اس میں اب بھی مبتلا ہیں۔ یورپ، ایران، امریکا اور دوسرے ایشیائی ملکوں میں پھیل رہا ہے اور ہلاکتوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پہلے یہ وائرس چین کے شہر ووہان کی تجربہ گاہ BSL-4 Lab سے باہر پھیلا اور اب یہ وائرس پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ پروفیسر کا کہنا ہے کہ میری اس بات کی تصدیق سینیٹر Cotton اور چار دوسرے سائنسداں بھی کرچکے ہیں جن میں سے تین کا تعلق فرانس کے شہر مارسلیز اور ایک کا تعلق کینیڈا کے شہر مانٹریال سے ہے۔
وائرس کش تحقیق (Anti-Viral Research) سے متعلق ان چاروں کے تحقیقی مقالے ۱۰ فروری ۲۰۲۰ء کو شائع ہوئے۔ ان چاروں سائنسدانوں نے چین کے شہر ووہان سے نکلنے والے کورونا وائرس کا جینیاتی تجزیہ کیا ہے۔ ان کے تحقیقی مقالے میں ایک جگہ کہا گیا ہے ’’آبادی میں موثر طریقے سے پھیلنے کے لیے ’’کووڈ۔۱۹‘‘ کے لیے گین آف فنکشن ٹیکنالوجی استعمال کی گئی جو خطرناک حیاتیاتی جنگی مادے کے ڈی این اے میں کی جانے والی جینیاتی تبدیلی ہے تاکہ اسے زیادہ موثر اور مہلک بنایا جاسکے۔ یہ عمل بی ایس ایل ۳ یا ۴ یعنی ’’بائیو سیفٹی لیول لیبارٹری‘‘ میں کیا جاسکتا ہے جنہیں بیکٹیریا وائرس اور جرثومے کی تحقیق کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بی ایس ایل ۳ لیبارٹریز میں ایسے مائیکرو بائیولوجیکل وائرسوں پر تحقیق ہوتی ہے جو سانس کے راستے انسانی جسم میں داخل ہوکر مہلک بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔ چنانچہ نیا کورونا وائرس ایک بی ایس ایل ۴ لیبارٹری ہی سے باہر آیا۔ یہ نیا وائرس انسانی تخلیق کردہ ایک ایسا حیاتیاتی جنگی ہتھیار ہے، جسے مزید مہلک بنانے کے لیے اس کے ڈی این اے میں جینیاتی تبدیلی کی گئی، جس کا استعمال طبی اور سائنسی لحاظ سے غیرقانونی ہے اور یہ امریکا کے متعارف کردہ بائیو لوجیکل ہتھیاروں کے انسداد دہشت گردی ایکٹ کی بھی خلاف ورزی ہے۔ لہٰذا یہ عذر قابل قبول نہیں ہے کہ یہ ایک ویکسین ٹیسٹ تھا جو بے احتیاطی کی وجہ سے لیبارٹری سے باہر نکل گیا۔ ایسا کہنا مضحکہ خیز بات ہے۔ یہ واضح طور پر ایک جارحانہ بائیو لوجیکل ہتھیار ہے جسے تخلیق کرنے کا کوئی جائز طبی جواز موجود نہیں ہے‘‘۔
میرے پاس اس کے قطعی ثبوت موجود ہیں کہ نئے کورونا وائرس کی ابتدا نارتھ کیرولینا یونیورسٹی امریکا میں واقع بی ایس ایل ۳ بائیو لیبارٹری سے ہوئی۔ میں اس عمل کی پہلے بھی مذمت کرچکا ہوں کیونکہ اس لیبارٹری میں مختلف وائرسوں کے ڈی این اے میں جینیاتی تبدیلی (گین آف فنکشن) کا گھنائونا کام ہوتا ہے۔ میں مرس (Mers) کورونا وائرس بھی شامل ہے جو مشرق وسطیٰ میں پھیلا تھا۔ مرس کا حیاتیاتی ہتھیار بھی اس کے ڈی
این اے میں جینیاتی تبدیلی کرکے بنایا گیا تھا اور اسے بھی نارتھ کیرولینا امریکا کی بی ایس ایل ۳ لیبارٹری میں تخلیق کیا گیا۔ اسی طرح سارس کورونا وائرس میں جینیاتی انجینئرنگ کی گئی جو پہلے ہی ایک حیاتیاتی ہتھیار تھا۔ اسے مزید مہلک بنایا گیا۔ یہ سوال اہم ہے کہ اس عمل میں کون کون شامل تھا۔ اس میں چیپل ہل کی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا کے تمام لوگ شریک تھے جبکہ امریکا فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے بعض لوگ بھی موجود تھے۔ لہٰذا آپ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن پر اعتماد نہیں کرسکتے۔ اس فہرست میں نیچے جاکر ایک اور نام بھی آتا ہے، وہ ہے زینگلی لی شی جو لیبارٹری آف اسپیشل پیتھوجنز اینڈ بائیو سیفٹی ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وریالوجی اور چائنیز اکیڈمی آف سائنسز ووہان کا اہم رکن ہے۔ ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وریالوجی کا یہ چینی سائنسدان، یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا کی لیبارٹری سے ’’سارس‘‘ کے لیے ’’گین آف فنکشن ٹیکنالوجی‘‘ حاصل کرنے وہاں پہنچا تھا تاکہ چین بھی مختلف وائرسوں کے ڈی این اے میں جینیاتی تبدیلی کے قابل بن سکے۔ اس نے یہ ٹیکنالوجی چرائی نہیں بلکہ امریکی لیبارٹری سے یہ ٹیکنالوجی خریدی۔ بعد ازاں اس سائنسداں کو نیشنل نیچرل سائنس فائونڈیشن آف چائنا کا اعلیٰ ایوارڈ دیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں چینی حکومت نے اسے اس کی اہم خدمات کا صلہ دیا جو اس نے سارس کے لیے گین آف فنکشن ٹیکنالوجی حال کرکے انجام دیں۔ نارتھ کیرولینا یونیورسٹی کے بہترین سائنسدانوں نے چین سے Dirty Money (غیرقانونی پیسہ) لے کر ووہاں انسٹی ٹیوٹ آف وریالوجی سے منسلک ان کے ٹاپ بایوفیئر ایکسپرٹ کو اپنی یونیورسٹی میں کام کرنے کی اجازت دی تاکہ وہ سارس کے لیے گین آف فنکشن ٹیکنالوجی حاصل کرکے اپنے ملک کو فائدہ پہنچاسکے۔
بنی نوع انسان کے خلاف اس گھنائونے جرم کی مرتکب اس امریکی لیبارٹری کو فوری بند کیا جانا چاہیے اور اس عمل میں شریک لیبارٹری کے تمام سائنسدانوں کے خلاف امریکی حکومت کو تحقیقات شروع کرنی چاہئیں، جنہوں نے بائیولوجیکل ہتھیاروں کے انسداد دہشت گردی ایکٹ ۱۹۸۹ء کی صریح خلاف ورزی کی۔
چین پر پروفیسر کا الزام:ـ
پروفیسر فرانسس بوئل کا الزام ہے کہ چین نے امریکی لیبارٹری سے گین آف فنکشن ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے بعد مختلف بائیولوجیکل ہتھیاروں کو ملاکر ایک مشترکہ حیاتیاتی ہتھیار بنانے کا تجریہ کیا جس کے لیے Chimera (کمیرا) کی سائنسی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس میں دو مختلف ڈی این کو ملانے کے ٹیسٹ ہوتے ہیں جس طریقہ سے سوائن فلو تخلیق کیا گیا تھا۔ چینی لیبارٹری میں ’’کمیرا وائرس‘‘ بنانے کے لیے گین آف فنکشن ٹیکنالوجی استعمال کی گئی اور اس کے تیزی سے پھیلنے کو یقینی بنانے کا ٹیسٹ بھی کیا گیا۔ یوں نیا کورونا وائرس کووڈ۔۱۹، سارس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ یہ نازی طرز کا کام تھا، جو ان سائنسدانوں نے کیا۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ووہان کی تجربہ گاہ میں حیاتیاتی ہتھیاروں پر کیے جانے والے اس کام کی منظوری نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ نے دی اور اس کے لیے فنڈ دیا۔
پروفیسر فرانسس بوئل کے نزدیک ووہان بائیو لیب میں تجربے کے دوران نیا کورونا وائرس حادثاتی طور پر لیک ہوا جیسا کہ اس سے پہلے سارس اور مرس وائرسوں کا حادثاتی طور پر رسائو ہوگیا تھا۔ اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ اس حوالے سے پروفیسر بوئل کا کہنا ہے ’’یہ بات مجھے اب بعض چینی سائنسدان بھی کہہ رہے ہیں کہ شاید یہ ایک حادثہ تھا۔ ایچ آئی وی اور سارس کو ملا کر ایک سپربائیولوجیکل ہتھیار بنانے کے دوران اس عمل میں شامل کسی سائنسدان کو انفیکشن ہوا اور وہ اس انفیکشن سے لاعلم رہا۔ وہ لوگوں میں کھلے عام گھومتا رہا اور یوں اس کے ذریعے دیگر انسانوں میں یہ وائرس منتقل ہوا اور پھر اس طرح آگے پھیلتا گیا اور اب پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے یعنی چینی سائنسدان آگ سے کھیل رہے تھے۔ پہلے خود اس کی لپیٹ میں آئے اور اب دنیا کے دیگر ممالک اس سے متاثر ہورہے ہیں۔ پروفیسر بوئل کے بقول آج امریکا سمیت بعض دیگر طاقتور ممالک مستقبل کی جنگوں کے لیے بائیولوجیکل ہتھیاروں کو جدید بنانے پر کام کررہے ہیں چین بھی ان ہی کوششوں میں ہے۔ چوہے، چمگاڈر یا کسی اور جاندار میں قدرتی مہلک وائرس کسی نہ کسی شکل یا مقدار میں ہوتے ہیں لیکن سائنسدان تحقیق اور تجزیوں کے ذریعے انہیں مزید مہلک یا بے ضرر بناسکتے ہیں اور ذرا سی غفلت، غلطی یا سہو ہزاروں بلکہ لاکھوں بے گناہ انسانوں کی موت کا سبب بن جاتی ہے جیسا چرنوبل (روس) اور بھوپال میں زہریلی گیس کے اخراج سے بڑے انسانی المیوں نے جنم لیا تھا۔