کورونا وائرس کا مطلب کچھ نہ کرو

1014

 

 

کورونا وائرس کے حوالے سے سندھ نے بالخصوص اور مرکزی حکومت نے بالعموم جو فیصلے کیے ہیں یا جو اقدامات اٹھائے ہیں ان سے ایسا لگتا ہے کہ بس حکومت یہ چاہتی ہے کہ لوگ کچھ نہ کریں اور اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں جبکہ اس وائرس سے پوری دنیا میں اب تک اتنا جانی نقصان نہیں ہوا جتنا کہ نفسیاتی اور معاشی نقصان ہوچکا ہے۔ یعنی اس وائرس سے مرنے والوں کی تعداد دس ہزار تک بھی نہیں پہنچی۔ پچھلے دنوں ایک جدی پشتی صحافی یاسر پیرزادہ نے ایک کالم میں بتایا کہ 14ویں صدی عیسوی میں طاعون کی وباء سے پورے یورپ میں سات کروڑ سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ پھر عیسائیوں نے بڑی تعداد میں یہودیوں کا قتل عام کیا کہ ان پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے جان بوجھ کر طاعون کے جراثیم پھیلائے تاکہ بڑی تعداد میں عیسائی ہلاک ہو جائیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اب سے شاید دس بارہ برس قبل بھارت کے کئی شہروں میں چوہوں کی بڑی تعداد گھروں اور بازاروں میں نکل آئی تھی جہاں حکومت بھارت نے ان چوہوں کو مارنے کے اور کسی بیماری کی وباء سے بچنے کے ہنگامی اقدامات اٹھائے وہاں یہ الزام لگانا بھی ضروری سمجھا کہ یہ پاکستان کی خفیہ تنظیم آئی ایس آئی کی سازش ہے۔
اس صورتحال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کن کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے اس پر ہمارا سوشل میڈیا تو بہت متحرک ہے اس میں کچھ سنجیدہ ہدایات اور تجاویز سامنے آرہی ہیں تو کچھ لوگ اس کو مزاحیہ انداز میں بھی لے رہے ہیں ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں کچھ لوگ ڈانس کررہے ہیں وہ کسی کلب یا کسی جگہ کی پکچر ہوگی لیکن کسی نے اس تصویر کے نیچے یہ جملہ لکھ دیا یہ وہ لوگ ہیں جن کی بیویوں کو کورونا وائرس ہوگیا ہے۔
کالج میں معاشیات کی کتابوں میں آبادی میں اضافے کے حوالے سے ایک بحث نظر سے گزری تھی، اس بحث کو مالتھسین تھیوری آف پاپولیشن کا نام دیا گیا تھا۔ مالتھس ایک معیشت دان تھا جس نے آبادی کے حوالے سے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ دنیا میں آبادی ریاضی کے حساب سے بڑھتی ہے یعنی آبادی بڑھنے کا پراسس 2-4-8-16-32-64 ہے۔ جبکہ خوراک کی پیداوارکا پراسس 1, 2. 3, 4, 5 کی طرح ہے اگر آبادی پر قابو نہ پایا گیا تو ایک وقت آئے گا دنیا غذائی بحران کا شکار ہو جائے گی لوگ بھوکے مرنے لگیں گے۔ وہ ایک ذہین معیشت دان تھا لیکن اس کے ذہن رسا میں یہ بات نہ آسکی کہ آگے جا کر سائنس اتنی ترقی کر لے گی اور ایسے آلات ایجاد ہو جائیں گے ان سے ایک ایکڑ زمین سے دس گنا پیداوار زیادہ اگائی جاسکتی ہے۔ اس نظریے کے مخالف معیشت دانوں نے مختلف دلائل دیے جن میں ایک بات یہ بھی تھی ایک بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو وہ ایک پیٹ اور 2ہاتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ پھر دنیا میں آبادی کنٹرول کرنے کچھ قدرتی طریقے بھی ہیں اس لیے خاندانی منصوبہ بندی کی مہم چلانا کوئی ضروری نہیں ہے۔ قدرتی طریقوں میں عالمی اور مقامی جنگیں، طوفان، سیلاب، زلزلے اور وبائی امراض سے لاکھوں، کروڑوں افراد ہلاک ہوجاتے ہیں اور اس طرح دنیا کی آبادی میں قدرتی طور سے ایک توازن قائم ہوتا جاتا ہے۔
اگر ہم پچھلے پانچ ہزار سال کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ قبائلی جنگوں میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوتی تھیں۔ انبیاء کرام کی دعوت کو رد کردینے والی قومیں اللہ کے غضب کا شکار ہوئیں بعض قومیں تو صفحہ ہستی سے مٹا دی گئیں سیدنا نوحؑ کی قوم پر جو عذاب آیا تھا اس میں پوری دنیا ختم ہوگئی تھی سیدنا نوحؑ کے ساتھ جو لوگ کشتی میں سوار تھے وہی ایمان لائے تھے اور پھر ان ہی سے دوبارہ دنیا قائم ہوئی۔ ہم شاید موضوع سے کچھ دور چلے گئے بات ہورہی تھی کورونا وائرس کے پھیلائو اور اس کی تباہ کاریوں کے حوالے سے۔ اب تک کورونا وائرس سے جو لوگ ہلاک ہوئے ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ان میں کورونا سے مرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے یا اس کے خوف سے مرنے والوں کی۔ جیسا کے کینسر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کینسر سے اتنے لوگ نہیں مرتے جتنے کہ اس کے خوف سے مر جاتے ہیں۔
حکومت سندھ نے جو دو ہفتوں کے لیے بلکہ اب تو وہ تین ہفتوں تک کے لیے جو پابنددیاں لگائی ہیں اس سے لگتا ہے کہ یا تو ان کے ہاتھ پیر پھولے ہوئے ہیں یا پھر اٹھارویں ترمیم کے مزے لے رہے ہیں ورنہ شاید ایسا کچھ نہیں ہے کہ آپ مریض کو ہائی پاور ادویات دیتے رہیں وفاقی حکومت کے ہاتھ پائوں تو خوشی سے پھول رہے ہیں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے بیش تر اشوز پس منظر میں چلے گئے کشمیر کا پانچ مہینوں سے لاک ڈائون، آٹا، چینی، کی مصنوعی مہنگائی کے حوالے سے انکوائری رپورٹ جو وزیر اعظم کی دراز میں رکھی ہے۔ اب وفاقی حکومت عارضی طور سے اس دبائو سے باہر آگئی ہے۔
ہم جیسے ایک عام فرد کے لیے جو ایک دیہاتی کی طرح سیدھی سادی سوچ رکھتا ہے، یہ سمجھنا مشکل ہو رہا ہے کورونا وائرس واقعی ایک وباء ہے یا وباء کی آڑ میں کوئی سازش ہے کہ اس کے ذریعے پوری دنیا میں ایک ایسا معاشی بھونچال پیدا کردیا جائے کہ ہر ملک کی اقتصادیات کو تباہ کردیا جائے، ترقی یافتہ ممالک تو اس جھٹکے کو اپنی بڑے معاشی اسٹرکچر کے باعث برداشت کر لے جائیں گے لیکن چھوٹے ممالک اپنی اقتصادیات کو سنبھال نہیں سکیں گے اور وہ بڑی قوتوں کے دست نگر ہو جائیں گے آج ہی آئی ایم ایف کا یہ فیصلہ سامنے آیا ہے کہ وہ کورونا وائرس سے متاثر ممالک کو 10کھرب ڈالر قرض دے گا اس میں پاکستان جیسے کم آمدنی والے ممالک کے لیے 10ارب ڈالر کا قرض صفر شرح سود پر مشتمل ہو گا اس حوالے سے 20ممالک نے آئی ایم ایف سے رابطہ بھی کرلیا ہے۔ پوری دنیا یہ جانتی ہے کہ آئی ایم ایف کو فنڈز کون سے ممالک دیتے ہیں اور یہ کس کے گھر کی لونڈی ہے۔ دوسری طرف ایک اور خبر کل نظر سے
گزری کہ جرمنی کے کسی تحقیقی ادارے کے سائنسدانوں نے کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرلی ہے جو تجربے میں کامیاب بھی ہوگئی ہے ان سائنسدانوں سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے براہ راست فون پر رابطہ کرکے اس ویکسین کی ملکیت امریکا کو دینے کی بات کی اور اس کے لیے انہوں نے بہت بھاری پیشکش بھی کی لیکن جرمنی کی حکومت نے انکار کردیا۔ ایک طرف آئی ایم ایف کے ذریعے شروع میں غیر سودی قرض دے کر ان ممالک کے فیصلوں اور پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کا پروگرام ہے دوسری طرف کورونا وائرس کی ویکسین پر قبضہ جما کر اس کو مہنگے داموں چھوٹے ممالک کو فروخت کیا جائے یعنی ایک ہاتھ سے جو قرض دیا جائے وہ دوسرے ہاتھ سے واپس لے لیا جائے پوری دنیا کی معیشت پر قبضہ کرنے کی یہ کوئی یہودی سازش نظر آتی ہے اس لیے کہ امریکا کی معیشت پر یہودیوں ہی کا قبضہ ہے۔
اب آپ حکومت سندھ کے اقدامات کو دیکھیے کہ ان کے سامنے وفاقی حکومت بھی بے بس نظر آرہی ہے، اسکول بند تو فیسیں نہیں پہنچ سکیں گی فیسیں نہیں ہو گی تو اساتذہ کو تنخواہیں نہیں مل سکیں گی، شادی ہال بند تو شادیاں ملتوی ہوں گی اس سے شادی ہالوں کا کروڑوں کا نقصان پکوان والوں کا نقصان اور اس سے جڑے ہوئے دیگر افراد اور ادارے بھی بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں اور کیا کیا کچھ ہو سکتا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، مہنگائی کا سیلاب تو آنا ہی آنا ہے جس کو عوام ہی کو بھگتنا ہوگا۔