کم ازکم 2018 ہی میں اندازہ ہوگیا تھا کہ 2020 ہنگامہ خیز ہوگا۔ اس کی وجوہات انتہائی واضح تھیں کہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو کے آغاز کے لیے درکار قربانی کے مطلوب جانور کی شرط 2020 ہی میں پوری ہو رہی ہے۔ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا مطلب ہے مسجد اقصیٰ کی شہادت اور مسجد اقصیٰ کی شہادت کا مطلب دنیا میں بے چینی ہے۔ اس سے قبل دنیا کو قابو میں کرنا ضروری تھا۔ 2019 اور 2020 ہی میں ان سارے ہتھیاروں کی فل ڈریس ریہرسیل سامنے آئی جن سے دنیا کو قابو میں کرنا ہے۔ سب سے پہلے موسمی ہتھیاروں کی ریہرسیل ہی دیکھ لیں، ایک طرف عرب ممالک میں بے موسم کی بے انتہا بارشیں اور شدید برف باری تو سوئٹزر لینڈ جیسے ملک میں برف باری نہ ہونے کے برابر، 2018 میں سوئٹزر لینڈ میں اتنی کم بارشیں کہ خشک سالی کا باقاعدہ اعلان کرنا پڑا، یورپ میں آنے والے حالیہ پے درپے طوفان جنہوں نے پیرس اور لندن کو ڈبو کر رکھ دیا، مسلسل زلزلے، ان سب کو دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ کسی بڑے ایونٹ سے قبل کی فل ڈریس ریہرسیل ہے۔ اس کے علاوہ مودی کی حماقتیں جنہوں نے ایک طرف بھارت کو تباہ کرکے رکھ دیا مگر دوسری طرف ایک ارب سے زاید کی آبادی کو اپنے مسائل ہی میں مصروف کردیا ہے۔ مودی کے ہمسر ٹرمپ کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ گلوب کے دوسری جانب بھی کچھ ایسی ہی حماقتیں جاری ہیں۔
سال 2020 میں حالات کو مزید قابو کرنے کے لیے کورونا کا پروجیکٹ بھی 2018 میں شروع ہوکر 2019 میں مکمل ہوا۔ اسی طرح انسانون میں چپ RFID یا digital identification دینے کا منصوبہ ID2020 بھی 2017 ہی میں شروع کیا گیا۔
کورونا کے دنیا میں پھیلاؤ کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ صرف چین، اٹلی اور ایران ایسے ممالک ہیں جہاں پر کورونا کے پرائمری کیس پائے گئے ہیں۔ بقیہ جگہوں پر کورونا کے مریض یا تو وہ ہیں جن کی ان ممالک کی سفر کی ہسٹری ہے یا پھر انہیں ان افراد سے یہ مرض منتقل ہوا ہے جو ان ممالک کا سفر کرچکے ہیں۔ اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ کورونا کا پہلا epicenter چین تھا، اس کے بعد اٹلی اور ایران دوسرے اور تیسرے epicenter ہیں جہاں سے کورونا کا جرثومہ پوری دنیا میں لانچ کیا گیا ہے۔ اب کہا جارہا ہے کہ springbreak کے لیے تیار رہیے۔ اسے ایک طرح کی دھمکی بھی جانیے کہ اگر بات نہ مانی گئی تو دیگر مقامات کو بھی epicenter میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ایک مرتبہ واقعات کی ترتیب تو دیکھیے۔ پہلا epicenter چین تھا جہاں پر ایک totalitarian حکومت ہے اور سب کچھ آہنی پردے کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ وہاں پر ncovid 19 کے استقبال کی پوری تیاری موجود تھی اور کورونا کے وبائی صورتحال اختیار کرتے ہیں فوری طور پر پانچ تا چھ کروڑ افراد کو لاک ڈاؤن کردیا گیا اور ہنگامی طور پر قرنطینہ کے مراکز قائم کردیے گئے۔ دس دس ہزار بستروں کے اسپتال چند دن میں قائم کرنا ہنسی کھیل کی بات نہیں ہے۔ اس کے لیے مہینوں پہلے سے تیاری کی ضرورت ہے۔ بستر سے لے کر ہر شے کی دستیابی کو ممکن بنانے کے لیے۔ مگر چین میں سب کچھ پہلے سے موجود تھا۔ اٹلی اور دیگر ممالک کو اس کی تیاری کے لیے مناسب وقت دیا گیا۔ اس وقت اٹلی، اسپین، سوئٹزر لینڈ میں ایسا مکمل کرفیو ہے کہ فوجیں سڑکوں پر موجود ہیں، کسی کو آمدو رفت کی اجازت نہیں ہے۔ حتیٰ کہ اگر اطلاع مل جائے کہ کسی کے گھر میں پڑوسی بھی آئے ہوئے ہیں تو ان پر بھاری جرمانہ کیا جائے گا۔ یعنی مکمل طور پر قید تنہائی۔ یہ تو یورپ کی صورتحال ہے۔ ایران کی صورتحال اس سے یکسر مختلف ہے۔ ایشیا میں عرب ممالک کے علاوہ اس طرح کا مکمل کرفیو لگانا ناممکن ہے تو ایران کا دوسرا کردار رکھا گیا اور وہ ہے دنیا کو کورونا کی ہلاکت خیزی دکھا کر ڈرانا۔ اب بین الاقوامی میڈیا قم کی تصاویر اور وڈیو کلپ جاری کررہا ہے جس میں بتایا جارہا ہے کہ سڑکوں پر مردے پڑے ہیں اور انہیں دفنانے والا کوئی نہیں ہے یا پھر اجتماعی تدفین کی جارہی ہے۔
کورونا وائرس کے نام پر جو بھی اقدامات کیے جارہے ہیں، ان سے دو باتیں تو واضح ہیں کہ اس کا کامیاب تجربہ کیا جاچکا ہے کہ پوری دنیا کو کس طرح سے کرفیو میں رکھا جاسکتا ہے۔ کرفیو بھی اتنا سخت کہ قید تنہائی جس میں لوگ نفسیاتی عوارض کا شکار ہورہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ کورونا کے بارے میں ابھی سے پروپیگنڈا جاری ہے کہ کورونا انتہائی ہلاکت خیز اور متعدی مرض ہے۔ اس کو اگر دنیا سے ختم کرنا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایک فرد کو اس کی ویکسین لگائی جائے اور ویکسین کو مانیٹر کرنے کے لیے RFID انتہائی ضروری ہے۔ ہوسکتا ہے کہ RFID کا پروجیکٹ مکمل ہونے میں پانچ تا دس برس کا عرصہ لگ جائے مگر جس لمحے RFID کا پروجیکٹ مکمل ہوگیا، اسی لمحے پوری دنیا آزاد انسانوں سے انسانی روبوٹوں میں تبدیل ہوجائے گی جو ایک شیطانی عالمگیر حکومت کے قیام کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
اچھی طرح سے سمجھ لیجیے اور جان لیجیے کہ ایک عالمگیر شیطانی حکومت یا نیو ورلڈ آرڈر کا کیا مطلب ہے۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔