کورونا وائرس اور خوف۔ مقاصد کیا ہیں (حصہ اول)

2908

اعداد و شمار اور حقائق دیکھیں تو اس بات میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا کہ کورونا وائرس کے حوالے سے پھیلایا جانے والا خوف و ہراس غیر ضروری ہے۔ یہ تاثر عمومی طور پر پھیلا دیا گیا ہے کہ جسے کورونا وائرس لگ گیا، اس کی موت یقینی ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے، کورونا وائرس کے بارے میں چند بنیادی معلومات کے حوالے سے میں ایک آرٹیکل پہلے ہی سپرد قلم کرچکا ہوں جو میری ویب سائٹ پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ خوف و ہراس پھیلانے کا مقصد کیا ہے۔ اس سوال پر گفتگو سے قبل چند باتوں کی وضاحت۔
کورونا وائرس اپنی قسم کا اکلوتا وائرس نہیں ہے بلکہ یہ وائرس کے ایک پورے خاندان کا نام ہے۔ کورونا وائرس کا پورا خاندان نظام تنفس ہی کو نشانہ بناتا ہے۔ اس خاندان کا مشہور ترین وائرس سارس گزرا ہے۔ SARS مخفف تھا Severe Acute Respiratory Syndrome کا۔ اس کے ذریعے 2012-13 میں چین اور اس سے ملحقہ ممالک کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ موجودہ کورونا وائرس کا نام ہے NCoViD19 چونکہ اسے اپنے خاندان میں سب سے زیادہ ہلاکت خیز قرار دیا گیا ہے، اس لیے اسے Novel کا نام دیا گیا ہے اور NCoViD19 میں N سے مراد یہی ہے۔ Co کا مطلب ہے Corona Vi- کا مطلب ہے Virus اور D کا مطلب ہے Disease۔ اس میں 19 اس لیے اضافی ہے کہ یہ 2019 میں سامنے آیا یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ کورونا کا 2019 ایڈیشن ہے۔ دیکھنے میں NCoViD19 کی ہلاکت خیزی سارس کے مقابلے میں پانچ گنا کم ہے۔ NCoViD19 سے اب تک ہلاکت خیزی کی شرح دو فی صد ہے جبکہ سارس کی ہلاکت خیزی کی شرح دس فی صد تھی۔ سارس کے بارے میں اس لیے دنیا میں زیادہ شور نہیں اٹھا کہ یہ ایک نسلی ہتھیار تھا اور اس نے صرف چینی نسل کے باشندوںکو اپنا نشانہ بنایا تھا۔ چین میں بھی اس کی ہلاکت خیزی ہان نسل کے باشندوں تک ہی محدود تھی جبکہ اس نے ترک نسل کے چینی باشندوں پر ذرہ برابر بھی گزند نہیں پہنچائی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سارس سے چین کے علاوہ ہانگ کانگ، سنگاپور، ملائیشیا تک متاثر ہوئے تھے مگر اس نے چین کے جنوبی علاقوں کو جس میں سنکیانگ بھی شامل ہے، بالکل متاثر نہیں کیا تھا۔ سارس کے نسلی ہتھیار ہونے کی وجہ ہی سے امریکا اور کینیڈا میں اس کے کیس انتہائی کم تعداد میں رپورٹ ہوئے تھے اور ان سے کوئی ہلاکت خیزی نہیں ہوئی تھی۔ ایک وضاحت ویکیسن کے بارے میں بھی۔ ایک تاثر یہ بھی پھیلادیا گیا ہے کہ بس ویکسین سامنے آئی اور کورونا قابو میں۔ یہ بات سمجھ لینے کی ہے کہ ویکسین کسی بھی مرض کا treatment نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ prevention ہے۔ یعنی مرض کے علاج کا ویکسین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے ویکسین کے آنے سے اس پر قابو پانے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
اب آتے ہیں اصل سوال کی طرف کہ کورونا کا خوف کیوں؟ اور اس کی وجہ سے پوری دنیا کا لاک ڈاؤن کیوں جاری ہے۔ نائن الیون کے واقعے کو دیکھیں تو اس میں بھی خوف کا ماحول بنانے میں میڈیا کا اسکرپٹ اہم ترین ہے۔ اب تو یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ نائن الیون میں ٹوئن ٹاورز کو نہ تو کسی مسافر بردار طیارے نے نشانہ بنایا تھا اور نہ ہی یہ کسی بیرونی تنظیم کا کارنامہ تھا۔ ٹوئن ٹاور سے ٹکرانے والے جہاز بڑے ڈرون تھے اور یہ عمارتیں جہاز کے ٹکرانے سے گرنے کے بجائے ڈائنامائٹ سے اڑائی گئی تھیں اور یہ سارا کارنامہ سی آئی اے کے ذریعے انجام پایا تھا۔ نائن الیون کے واقعے کے دوران اور بعد میں میڈیا نے بین الاقوامی سازش کاروں کی ہدایت پر جو کردار ادا کیا تھا، اسے ہم آج زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔
ایک اور غلط فہمی یہ بھی ہے کہ یہ امریکا اور چین کی جنگ ہے جس میں روس خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ امریکا نے کامیابی سے چین کی اقتصادی پیش قدمی کو پسپا کردیا ہے۔ کورونا وائرس کے امریکا اور اسرائیل میں پہنچے کو کہا جارہا ہے کہ اپنے دام میں صیاد آپ آگیا۔ سب سے پہلی بات تو یہی ہے کہ بین الاقوامی سازش کار جو دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت یا New World Order چاہتے ہیں، ان کا کسی ملک یا قوم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ (یہ بین الاقوامی سازش کار کون ہیں اور کس طرح سے دنیا پر قابض ہوئے، اس بارے میں میری کتاب جنگوں کے سوداگر ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی صاحب اس میں دلچسپی رکھتے ہوں تو یہ انہیں pdf میں ای میل کی جاسکتی ہے)۔ نائن الیون سے جتنا دیگر ممالک کو نقصان پہنچا، اس سے زیادہ تو خود امریکا کو پہنچا۔ امریکا، چین، روس سمیت دنیا کا کون سا ملک ہے، جہاں پر ان کے ایجنٹ حکومت میں یا نچلی سطح تک پر موجود نہیں ہیں۔ کورونا وائرس ہی میں دیکھ لیں کہ امریکا اور اسرائیل بھی بالکل وہی اقدامات کررہے ہیں جو دیگر ممالک کررہے ہیں۔ دیے گئے پروٹوکول اور اس پر عمل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ صرف برطانیہ نے ابھی تک اس پروٹوکول پر عمل نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے اس پر شدید تنقید جاری ہے اور جلد ہی اسے بھی اس پر مجبور کردیا جائے گا۔
ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ جلد ہی پوری دنیا میں موسم گرما شروع ہوجائے گا اور یوں NCoViD19 اپنی موت آپ مرجائے گا۔ اصولی طور پر تو ایسا ہی ہونا چاہیے مگر اسکرپٹ کے مطابق دیے گئے بیانات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے خالقوں کا ایسا کرنے کا کچھ بھی ارادہ نہیں ہے۔ کہا جارہا ہے کہ spring attack کے لیے تیار رہیں جو اس سے بھی زیادہ خطرنات ہوسکتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ NCoViD19 کے re-emergence کے زیادہ اندیشے ہیں، جس کے لیے ابھی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اصل سوال اب بھی باقی ہے کہ دنیا میں خوف وہراس کیوں پھیلایا جارہا ہے اور پوری دنیا کو لاک ڈاؤن کرنے کے کیا مقاصد ہیں۔ اس سوال پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔