کورونا وائرس: دنیا کے لیے ایک اور نائن الیون

3067

نائن الیون جدید دنیا کا ٹرننگ پوائنٹ تھا جس کے بعد سے دنیا یکسر تبدیل ہوگئی۔ نائن الیون ایک کامیاب تجربہ تھا جس کے بعد دہشت گردی کے نام پر کسی بھی ملک پر لشکر کشی اور انسان کی اپنی حفاظت کے نام پر بنیادی انسانی حقوق کی معطلی و ضبطگی دنیا کا آسان ترین کام بن گیا۔ گزشتہ بیس برسوں میں اس دنیا کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، نائن الیون سے قبل اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ کچھ یہی صورتحال کورونا وائرس کے نئے ایڈیشن کے بعد دنیا کو درپیش ہے۔ کورونا وائرس Ncovid 19 سے قبل یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ کوئی بھی ملک خود ہی اپنا مقاطعہ بھی کرسکتا ہے، خود ہی پوری دنیا سے اپنا ہر قسم کا رابطہ بھی منقطع کرسکتا ہے اور اپنے ہی پورے کے پورے شہر کو قید خانے میں تبدیل بھی کرسکتا ہے۔ کورونا وائرس کے بعد یہ سب کچھ انتہائی کامیابی سے ہوا کہ شہریوں کو ان کے اپنے گھروں میں قید تنہائی کا شکار کردیا گیا ہے۔ اب ایک ایک کرکے سارے ملک اپنے آپ کو ازخود لاک ڈاؤن کرتے جارہے ہیں۔
دنیا بھر میں درجنوں بیماریوں سے لاکھوں لوگ مرجاتے ہیں، مگر کبھی بھی یہ صورتحال سامنے نہیں آئی۔ فلو اور کورونا کی علامات اور نتائج میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے، دونوں بیماریاں ایک ہی طرح سے ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتی ہیں۔ فلو کی ہلاکت خیزی اب تک دنیا میں کورونا کے مقابلے میں انتہائی زیادہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر برس ساڑھے چھ لاکھ افراد فلو کی وجہ سے موت کی نیند سو جاتے ہیں۔ چونکہ اس کے بارے میں کہیں پر کوئی نیوز الرٹ نہیں آتا اس لیے پوری دنیا میں اس سے کوئی خوف بھی نہیں ہے۔ فلو سے سب سے زیادہ موت کا شکار امریکا میں ہوتے ہیں۔ اب تک رواں سیزن میں امریکا میں فلو سے مرنے والوں کی تعداد 22 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ فلو کی وجہ سے اسپتال میں داخل ہونے والوں کی تعداد 3 لاکھ 70 ہزار ہے۔ امریکا میں ابھی تک فلو سے متاثر ہونے والوں کی تعداد دو کروڑ 20 لاکھ سے زاید ہے۔ اب اس پر حیرت ہی ظاہر کی جاسکتی ہے کہ اسی امریکا میں محض 3ہزار 774 افراد کے کورونا سے متاثر ہونے اور صرف 69 افراد کی ہلاکت پر ہنگامی حالت کا اعلان کردیا جائے۔ لوگ اتنے خوفزدہ ہوجائیں کہ اسٹور خالی ہوجائیں اور لوگ سپر اسٹورز میں اشیائے خور ونوش کے لیے ایک دوسرے گتھم گتھا ہوجائیں۔ نیویارک ائرپورٹ پر اسکریننگ کی وجہ سے ہزاروں لوگ جمع ہوجائیں اور انہیں باہر نکلنے میں سات گھنٹے لگ جائیں۔ اس وقت پوری دنیا کو عملی طور پر بند کردیا گیا ہے۔ بین الاقوامی آمدو رفت بتدریج صفر پر لائی جارہی ہے۔ اندرون ملک آمدو رفت بھی بیش تر ممالک میں روکی جاچکی ہے جبکہ دیگر ممالک میں بھی یہ کام جاری ہے۔
کورونا سے خوفزدہ کرنے کے عمل کو جانچنے کا بہترین ٹیسٹ کیس پاکستان ہے۔ پاکستان میں ابھی تک کورونا کے مریضوں کی تعداد دو سو کا عدد بھی نہیں چھو سکی ہے۔ یہاں پر ایک بھی سیکنڈری کیس رپورٹ نہیں ہوا ہے یعنی ایک بھی فرد ایسا نہیں ہے جسے پاکستان میں کسی مریض سے یہ مرض منتقل ہوا ہو۔ سارے کے سارے مریض ایران یا کسی اور ملک سے آئے ہیں۔ پاکستان میں پہلا مریض یحییٰ جعفری تھا جسے پاکستان آنے کے دس دن کے بعد اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ یحییٰ جعفری میں بھی اتفاقاً کورونا دریافت ہوگیا تھا کہ وہ اپنے بخار اور
کھانسی کی تکلیف کے ساتھ ساتھ سانس لینے میں تکلیف کی شکایت کے ساتھ آغا خان اسپتال پہنچا تھا۔ ایران سے آمدکے بعد یحییٰ جعفری دس دن اپنے گھر والوں کے ساتھ رہا، کراچی یونیورسٹی میں کلاس لیتا رہا اور محلے میں اپنے دوستوں کے ساتھ گھومتا پھرتا اور کھاتا پیتا بھی رہا۔ ان سب کے باوجود یحییٰ جعفری سے کسی بھی ایک فرد کو یہ مرض منتقل نہیں ہوا۔ مگر سندھ میں فوری طور پر تعلیمی ادارے بند کردیے گئے اور اب آہستہ آہستہ سندھ کو لاک ڈاؤن کی طرف لے جایا جارہا ہے۔ کورونا کے نام پر ایسے ایسے اقدامات کیے گئے جن کی کوئی توجیہہ سمجھ میں نہیں آتی۔ شادی ہال بند، پارکس سمیت ساری تفریح گاہیں بند، کرکٹ ٹورنامنٹ میں تماشائیوں پر پابندی، ہر قسم کے مذہبی و سماجی اجتماع پر پابندی، مساجد میں نماز کا اجتماع مختصر ترین وغیرہ۔
سندھ حکومت میں بیٹھا کوئی بزرجمہر بتائے کہ شادی ہال میں تو پھر بھی لوگ فاصلے پر ہوتے ہیں، اب گھروں میں شادی ہونے کی وجہ سے تو تنگ جگہ پر زیادہ بھیڑ بھاڑ ہوگی تو اس سے کورونا وائرس زیادہ نہیں پھیلے گا۔ میدان میں کرکٹ کھیلنے والے بچے اور پارک میں جاگنگ کرنے والے کس طرح سے کورونا وائرس پھیلائیں گے؟ رات گیارہ بجے ریسٹورنٹ بند کرنے سے تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ رات گیارہ بجے سے پہلے کورونا کو کسی پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اہم ترین بات کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والے تو زیادہ ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں۔ کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ کو جاننے والے جانتے ہیں کہ کس طرح سے مسافر جانوروں کی طرح ویگنوں میں ٹھنسے ہوتے ہیں۔ ایک کا چہرہ دوسرے کے کندھے پر ہوتا ہے۔ چونکہ یہ سارے لوگ کم تنخواہ والے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے موسمی بیماریوں کا شکار بھی خوب ہوتے ہیںاور کھانس وچھینک بھی خوب رہے ہوتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال چنگ چی کا ہے۔ اگر سندھ یا کراچی میں کورونا وائرس پھیل رہا ہوتا تو اب تک آدھا کراچی کورونا وائرس میں مبتلا ہوتا۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہے مگر حکومت اور میڈیا نے مل کر کورونا وائرس کے خوف میں پورے سندھ خصوصی طور پر کراچی کو ضرور مبتلا کردیا ہے۔ میڈیا کا تو یہ حال ہے کہ اسے پاکستان میں کورونا مریض کے دریافت ہونے سے قبل ہی اس کی ہدایات آچکی تھیں کہ کورونا کو کوریج تفصیلی دینی ہے۔
اب خوف کا یہ عالم ہے کہ اہل کراچی راشن کا ذخیرہ کررہے ہیں اور ایک دوسرے سے خوفزدہ ہیں۔ یہ اس کراچی کا حال ہے جہاں پر روز صرف کتے کے کاٹے کے 150 کیس رپورٹ ہوتے ہیں مگر روز کورونا کے 15 مریض بھی رپورٹ نہیں ہورہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر حکومت میں دیے گئے املا پر چلنے والے افراد بیٹھے ہوں اور میڈیا اپنے ہاتھ میں ہو، تو اصل خطرے سے بھی لوگ خوفزدہ نہیں ہوتے اور مصنوعی خطرے سے اتنے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ اصل میں یہ خوف ہی ہے جو انسان کو بزدل بناتا ہے اور دوسروں کا غلام بنا دیتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ڈاکٹروں، فارماسسٹ اور صحافی جن لوگوں کی یہ ذمے داری تھی جو لوگوں کو اصل حقائق سے آگاہ کرتے، وہی اس پروپیگنڈے کا زیادہ شکار ہیں انہوں نے ہی شہریوں کو ڈرانے میں سبقت لی ہوئی ہے۔ خوف ہی شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
آئندہ آرٹیکل میں جائزہ لیتے ہیں کہ کورونا وائرس سے کیا کچھ مطلوب ہے۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔