لاڑکانہ کے 73 پولیس انسپکٹرز خلاف ضابطہ کراچی منتقل

287

کراچی(رپورٹ:محمدانور)حکومت سندھ نے کوروناوائرس کی وباء کی بازگشت میں لاڑکانہ کے 73 پولیس افسران کا کراچی تبادلہ کردیا۔اس قدربڑی تعداد میں پولیس انسپکٹرز کو لاڑکانہ سے تبادلہ کرکے ایک ساتھ کراچی رینج پولیس یا کسی اور رینج کے حوالے کرنے کی مثال نہیں ملتی۔ حکومت سندھ کے محکمہ پولیس کے حکم نامے کے مطابق لاڑکانہ رینج کے 73 پولیس انسپکٹرز کا فوری کراچی رینج میں تبادلہ کردیا گیا ہے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ان تمام پولیس انسپکٹرز کا کراچی میں تقرر کا مقصد لاڑکانہ میں پولیس انسپکٹرز کی نئی اسامیاں پیدا کرنا ہے،جس کے نتیجے میں کراچی کا ڈومیسائل رکھنے والوں کے لیے پولیس میں بھرتی ہونے کے مواقعے غیر معمولی طور پر محدود ہوجائیں گے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق آئی جی کلیم امام ایسے ہی اقدامات پر مزاحمت کررہے تھے،جس کی وجہ سے حکومت سندھ ان سے نالاں تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ تمام انسپکٹرز کا بنیادی تعلق لاڑکانہ سے ہی ہے،ان تمام نے اندرون سندھ کے ڈومیسائل کے تحت ہی پولیس میں ملازمتیں حاصل کی تھیں ،ان میں سے بیشتر کو نہ اردو زبان پر عبور ہے اور نہ ہی یہ بنیادی انگریزی زبان اور کراچی کے علاقوں سے واقف ہیں،مذکورہ انسپکٹرز کی بھرتیاں اور ترقیاں مبینہ طور پر سفارش کی بنیاد پر ہوئی ہیں۔خیال رہے کہ صوبائی پولیس کا مکمل کنٹرول سندھ حکومت کی براہ راست نگرانی میں جانے کے بعد یہ اس طرح کا پہلا قدم ہے،جس کے نتیجے میں خد شہ ہے کہ کراچی میں سیاسی اور سماجی جماعتوں اور شہری حلقوں کی جانب سے شدید منفی ردعمل کا اظہار کیا جائے گا۔ جن پولیس انسپکٹرز کا کراچی میں تبادلہ کیا گیا ہے ان میں غلام مصطفی ابڑو ،نثار احمد کھوکھر، آفتاب احمد مگسی ، رشید لودھی ، منظور احمد مہر ، اسلام جتوئی ، شبیر عباسی،عبدالحلیم سومرو ، غلام اضغر، نذیر حسین مگسی ، زاہد حسین قادری ، انور علی حسان ، محمد ارس نورانی ، غلام شبیر جانوری ، سید وریل شاہ ، جان محمد منگریو ، ثنااللہ جلبانی ، شفقت دھامرا ، محمد مجتبی ابرو ، غلام شبیر کھیڑو ، نیر حسین بروہی ، غلام مصطفی ، جاوید بروہی ،سیف اللہ سدھایو ،آصف علی ، عبدالوحید ابڑو، ممتاز علی سیال ،حسین علی بروہی ، جانی جاکھرانی ، الیاس سانگی ، عبدالسلام چانڈیو ، گلزار کلہوڑو ، امداد چانڈیو ، طالب حسبانی ،ارسلاخان پٹھان ، غلام قادر جتوئی ، اظہر احمد منگی ، طارق جلیان ، اسلم پرویز ابڑو ، نور محمد چنا ، عبدالستار بھیو ، امید علی شاہ ، محمد سلیم پٹھان ،گل شیر ، ملازم عباسی ، محمد علی مہر ، منور بروہی ، غلام سرور سرکی ، عبدالقدوس ماری ، زبیر احمد جلیان ، غلام مصطفی ندوانی ، عبدالکلیم شاہ ، طالب جلبانی ،شبیر سہتو ، مختاریا میمن ، برکت علی شاہ ، سجاد سومرو ، نیاز مغیری ، محمد الیاس اوڈھو ،سید احمد دیہر ، امداد ابڑو ، فرمان علی بھٹو ، وزیر احمد بھٹو ، اعجاز علی سیہر ، سلیم رضا ابڑو ، بشیر مگسی ، اظہار احمد ، نثار احمد نون ، منظور بابر بھٹو اور عبدالغفار سنجرانی شامل ہیں۔خیال رہے کہ پولیس میں ایک پلاٹون میں شامل کل تعداد اہلکاروں کی تعداد 15 تا 45 ہوا کرتی ہے۔ اس حساب سے 2 پلاٹون کے مساوی پولیس انسپکٹر کی فورس کو کراچی پہنچادیا گیا ہے۔ جوایڈیشنل آئی جی کراچی کی صوابدید پر ہوگی۔ خدشہ ہے کہ ان میں سے اکثریت کو ایس ایچ او لگادیا جائے گا اس طرح کراچی کے تھانہ انچارج میں بیشتر تعداد سندھیوں کی ہوجائے گی۔یہ بھی یاد رکھیے کہ جس ڈویژن کے لیے جو بھرتیاں کی جاتی ہیں ان کی تعیناتی بھی اسی ڈویژن میں کی جاتی ہے لیکن ایک ساتھ 73 پولیس انسپکٹرز کا کراچی میں تقرر نہ صرف خلاف ضابطہ ہے بلکہ خلاف قانون بھی ہے،اس فیصلے پر عدالت عالیہ یا عدالت عظمیٰ بھی نوٹس لے سکتی ہے۔