بھارت میں ہندو تعصب، نفرت اور تشدد کی شکار اقلیتوں کو جس طرح کی صورتحال کا سامنا ہے اس کا اندازہ ممبئی، گجرات، احمد آباد اور حالیہ دہلی فسادات کہ جن میں مسلمان ہدف رہے میں دیکھا جاسکتا ہے جبکہ ’’نیشنل کمیشن آف مینارٹیز‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کے علاوہ عیسائی برادری کے خلاف بھی حملوں کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ علاوہ ازیں بعض دیگر رپورٹوں کے مطابق بھارت میں ایک ارب سے زائد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بھارت کے 1 ارب 14کروڑ یعنی 86 فی صد کی اوسط آمدنی یومیہ ساڑھے 5 ڈالر یعنی 225 روپے سے بھی کم ہے، بھارت دنیا کے ان بڑے ممالک کی فہرست میں ٹاپ 5 پر آتا ہے کہ جہاں بے گھر افراد کی کثیر تعداد موجود ہے۔ بھارت میں بے گھر افراد کی کل تعداد میں 10 فی صد خواتین ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں، ممبئی اور دہلی میں لاکھوں خاندان ایسے ہیں کہ جن کی کئی نسلیں فٹ پاتھ پر پیدا ہوکر فٹ پاتھ پر ہی دم توڑ گئیں۔ انسانی حقوق کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف نئی دہلی میں بے گھر افراد کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ ممبئی کی ایک کروڑ 25 لاکھ سے زائد آبادی میں نصف بنیادی سہولتوں سے محروم ہے، 25 ہزار لوگ دن رات سڑکوں پر گزارتے ہیں، بھارت میں بھکاریوں کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے جبکہ ملک کی 15 سے 20 فی صد آبادی کو باتھ روم جیسی بنیادی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ بیروزگاری، خاندان کی حمایت سے محرومی، ناکافی آمدنی، معذوری، گھریلو تشدد، شراب اور منشیات کا بے تحاشا استعمال کہ جن میں خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد مبتلا ہیں بہت زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ 18 سال سے کم عمر 15 کروڑ بھارتی بچے گلیوں میں رہنے پر مجبور ہیں ان میں سے 6 کروڑ کی عمریں 6 سال سے بھی کم ہیں۔ ہم پڑوسی ملک بھارت کے داخلی امن اور ترقی کے خواہش مند ہیں تاہم یہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے کہ جب بھارتی سرکار اور بھارت کی سیاسی و فوجی قیادت ہندو تعصب، اقلیتوں سے نفرت، جنگی جنون اور جارحانہ عزائم سے باز آجائے بصورت دیگر بھارت ایک ’’ناکام ریاست‘‘ کے طور پر مزید ناکامی سے دوچار ہوتا رہے گا۔
کورونا وائرس وارننگ بھی اور دعوت بھی:
’’کورونا وائرس‘‘ چین سمیت دنیا کے 80 ممالک تک پھیل چکا ہے جن میں امریکا سمیت یورپی ممالک بھی شامل ہیں امریکا کی ایک ریاست کیلی فورنیا میں ہنگامی حالات نافذ ہوچکے ہیں، دنیا بھر میں متاثرین کی تعداد 98 ہزار سے بڑھ چکی ہے جبکہ اموات کی رپورٹ تاحال 3352 ہے، چین میں اب تک 3013 ہلاکتیں، اٹلی میں 148 جبکہ ایران تیسرے نمبر پر ہے کہ جہاں اب تک 107 لوگ کورونا وائرس سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک ادارے برائے سائنس، تعلیم اور ثقافت (یونیسکو) نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں تقریباً 3 کروڑ بچوں نے اسکول جانا چھوڑ دیا ہے، 13 ممالک نے اپنے تمام اسکول بند کردیے جبکہ دیگر 9 ممالک نے اپنے اسکول جزوی طور پر بند کر رکھے ہیں۔ مذکورہ رپورٹ سے خوفزدہ ہونے کے بجائے دنیا کے تمام انسانوں اور ترقی یافتہ ممالک کو سوچنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے آج تمام وسائل، ٹیکنالوجی اور جدید ترین علوم حاصل ہونے کے باوجود وہ ایک معمولی وائرس کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہوگئے۔
حقیقت یہ ہے کہ کورونا وائرس ’’عذاب الٰہی‘‘ ہے جس میں وارننگ بھی ہے اور دعوت بھی کہ آؤ لوٹ آؤ ’’دین اسلام‘‘ کی طرف کہ جہاں تمہاری زندگی، موت اور بعداز موت زندگی کو آسان اور پرسکون بنا دیا جائے۔
2020ء غیر ملکی فوجوں کے انخلا کا سال قرار دیا جائے:
دنیا کی سب سے بڑی ضرورت ’’امن‘‘ ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر سے لیکر فلسطین تک، افغانستان سے عراق و شام تک، بابری مسجد سے بیت المقدس تک عقیدے اور اقوام کی آزادی کو بیرونی دباؤ اور مداخلت کا سامنا ہے جس کی وجہ سے جارحیت اور مذاحمت کے درمیان ٹکراؤ جاری ہے۔۔۔ اس تشویشناک صورتحال میں اقوام متحدہ کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے جس کے لیے پہلے مرحلے پر ’’یو این او‘‘ 2020ء کو غیر ملکی فوجوں کے انخلا کا سال قرار دے اور جہاں بھی داخلی انتشار اور خانہ جنگی ہے وہاں پر اقوام متحدہ کی ’’امن فوج‘‘ کے دستے تعینات کیے جائیں۔ امید ہے کہ اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک ’’دیرپا عالمی امن‘‘ کو یقینی بنانے کے لیے 2020ء کو غیر ملکی فوجوں کے انخلا کا سال قرار دینے کے لیے متوجہ ہوتے ہوئے اپنی ذمے داری پوری کریں گے۔
’’افغان امن معاہدے‘‘ پر عمل درآمد تمام فریقین کی ذمے داری ہے
9/11 کے حملے میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا پھر بھی پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور 75 ہزار جانیں قربان کیں۔ جب کہ 123 ارب ڈالر کا معاشی خسارہ برداشت کیا۔ ایک لاکھ سے زیادہ افغان شہری جاں بحق ہوئے، زخمی و معذور لاتعداد ہیں۔ جب کہ 5 ہزار کے قریب امریکی و ناٹو افواج کے فوجی ہلاک ہوئے۔ دوران جنگ امریکا 2 کھرب سے زائد کی رقم خرچ کرچکا۔ پاکستان اور ایران میں تقریباً 50 لاکھ افغان پناہ گزین موجود ہیں۔
امریکا کی برپا کی ہوئی ’’افغان جنگ‘‘ ناکام اور بے نتیجہ رہی۔ جب کہ اِس جنگ سے علاقائی امن سمیت ’’عالمی امن‘‘ بھی شدید متاثر ہوا۔ لہٰذا جو جنگ 20 برس سے میدان جنگ میں نہ جیتی جاسکی اُس کو مذاکرات کی میز پر ختم کردینا بھی ایک کامیابی ہے۔ اس لیے طالبان اور امریکا کے درمیان 29 فروری 2020ء کو دوحہ (قطر) میں طے پانے والے ’’امن معاہدے‘‘ کی پاسداری کرنا اور اُس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا تمام فریقین کی ذمے داری ہے۔