سکھر (نمائندہ جسارت) سکھر شہر کی قدیم عمارت مہران مرکز کی چھت پر غیرقانونی تجاوزات کی بھرمار نے سوالات کھڑے کردیے، شہری حلقوں کے مطابق سکھر سمیت سندھ بھر میں متعدد بوسیدہ عمارتوں کے گرجانے کے باعث سیکڑوں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوجانے کے باوجود تاریخی عمارت پر تاحال سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی آنکھ بند ہونے سے المناک حادثے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ شاندار شاہکار تجارتی مہران مرکز میں 150 سے زائد دکاندار عرصہ دراز سے اپنے خاندانوں کی کفالت میں مصروف ہیں جبکہ 100 سے زائد خاندان چار دہائیوں سے یہاں مقیم ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس شاہکار کی چھت پر قائم تجاوزات نے تاجروں سمیت یہاں پر مقیم افراد کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ دکانداروں کے مطابق سندھ بلڈنگ کنڑول اتھارٹی کی جانب سے بلدیہ اعلیٰ کو دیے گئے نوٹس میں انہی تجاوزات کی وجہ سے عمارت کو خطرناک قرار دیا گیا ہے جبکہ فوری طور پر ان تجاوزات کو ختم کروانے کا عندیہ دیا گیا تھا۔ برعکس اس کے بلدیہ اعلیٰ کے ذمے دار افسران اپنے مفادات کی خاطر ان تجاوزات کو ختم کروانے کے بجائے پوری عمارت کو ہی گرانے کا منصوبہ بنا کر ہمیں بے روزگار کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دکانداروں کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں جیسے ہی بلدیہ کی طرف سے نوٹس ملا تو ہم نے وقت ضائع کیے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت پہلے سے مضبوط عمارت کی مرمت کرکے مزید مضبوط بنادیا ہے۔ دکانداروں نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ چند ماہ پہلے عمارت کی تزئین و آرائش اور مرمتی کام کے سلسلے میں سینیٹر اسلام الدین شیخ اور ایم این اے نعمان اسلام شیخ نے جدوجہد کرکے سندھ گورنمنٹ سے 2 کروڑ روپے سے زائد کے فنڈ اور بجلی کے دو ٹرانسفارمر منظور کرائے تھے جس میں سے تاحال ایک ٹرانسفارمر اب تک غائب ہے اور ملنے والے فنڈ کا بھی اپنے منظور نذر ٹھیکیداروں کے ذریعے بے دریغ استعمال کیا گیا اگر اس کا آڈٹ کرالیا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ مذکورہ صورتحال کے مطابق دکانداروں کا نقطہ نظر سو فیصد درست دکھائی دے رہا ہے کہ اگر انتظامیہ عمارت کی چھت پر قائم غیر قانونی تجاوزات کو فوری طور پر ختم کروا کر عظیم شاہکار کو تباہ حالی سے بچا کر اس کی زندگی میں مزید اضافہ کرسکتی ہے، جس کی وجہ سے کئی خاندان بے روزگار ہونے سے بھی بچ سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں سندھ گورنمنٹ کی جانب سے ملنے والے کروڑوں روپے کے فنڈ پر انکوائری مقرر کرکے آڈٹ بھی کرالیا جائے تو کئی رازوں سے پردہ اٹھ سکتا ہے۔