گجرات کا قسائی اور ٹوٹتا بھارت

534

سالار سلیمان
قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے ایک مرتبہ پاکستان کی مخالفت کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر آج تم نے پاکستان کا ساتھ نہ دیا تو تمہاری نسلیں بھارت سے وفاداری ثابت کرتے ہوئے ختم ہو جائیں گی اور پھر وقت نے بابائے قوم کی یہ بات حرف بہ حرف سچ ثابت کردی۔ 140 سے زائد ارب پتی افراد اور ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی پر مشتمل بھارت میں ہمیشہ ہی سے مسلمانوں نے کڑے وقت کا سامنا کیا ہے اور پھر بدقسمتی سے مودی کی حکومت آ گئی جس نے مسلمانوں کی زندگی مزید اجیرن بنا دی۔ گجرات کے اس قسائی کی تاریخ انتہائی بھیانک اور خوفناک ہے۔
غور سے دیکھا جائے تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ بھارت میں شروع دن سے اقلیت کے لیے دل تنگ ہی تھے، کسی نہ کسی شکل میں ان پر مظالم جاری رہے۔ 1948ء میں بھارت میں 35 ہزار کے لگ بھگ یہودی آباد تھے اور اُن میں سے بہت سے تو اسرائیل ہجرت کر گئے تاہم بہت سے ایسے بھی تھے جنہوں نے مقامی آبادی کے ’حسن سلوک‘ کی وجہ سے یورپ، امریکا اور کینیڈا کی جانب ہجرت کی تھی۔ آج بھارت میں آباد یہودیوں کی تعداد 3 ہزار سے زائد نہیں ہے اور وہ بھی کھلے عام اپنے خود کو یہود نہیں کہہ سکتے۔ مودی کے دورہ اسرائیل میں بھار ت میں آباد یہودیوں کے معاملے اور اُن کے حقوق کی بات بھی ہوئی، جس کو اس گجرات کے قسائی نے کمال صفائی سے ٹال دیا تھا۔ اسی طرح 1984ء میں گولڈن ٹیمپل کا مشہور واقعہ ہوا تھا ،جس میں ہندو دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کے زہریلے پراپیگنڈے کے نتیجے میں 3 ہزار سے زائد سکھ مارے گئے تھے۔ اس کے بعد شروع ہونے والے ہنگاموں میں سیکڑوں سکھ خواتین کی سرعام عصمت دری کی گئی، قتل عام کیا گیا، بچوں کو مار دیا گیا اور سکھوں کی املاک لوٹ مار کرنے کے بعد نذر آتش کردی گئیں۔ عیسائیوں کے گرجا گھروں پر حملے تو آج بھی معمول کی بات ہے۔ بھارت میں صرف 2018ء میں 12 ہزار سے زائد گرجا گھروں پر حملے کیے گئے۔ وہاں بھی عیسائی عورتوں کی عزت محفوظ نہیں ہے۔ 1992ء میں جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا، تب مودی نے اپنی نگرانی میں اپنے علاقے میں جشن کا انعقاد کرایا تھا اور تب ہی اعلان کیا تھا کہ اس مسجد کی جگہ پر ہم مندر بنائیں گے اور اُس نے یہ خواب اپنی حکومت میں آ کر پورا بھی کردیا۔
گجرات کے اس قسائی نے وزیر اعلیٰ بن کر اپنی ریاست میں فسادات کرائے تھے، جس کے نتیجے میں 3 ہزار سے زائد مسلمان شہید ہو ئے اور تقریباً 7 ہزار سے زائد عورتوں کی عصمت دری کی گئی تھی۔ شیر خوار بچوں کو قتل کرنے ےک علاوہ مسلمانوں کی دکانیں اور مال اسباب لوٹ لیا گیا تھا۔ اُس وقت کا مین اسٹریم میڈیا بالکل خاموش تھا۔ اُن کے رپورٹرز اور ایڈیٹرز کو ڈرایا دھمکایا گیا تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے ان واقعات کو رپورٹ ہی نہیں کیا۔ بعد ازاں جب فسادات ختم ہوئے اور تحقیقات کی گئی تو انسانیت کو شرما دینے والے حقائق سامنے آئے، تاہم اس پر بھی بھارت کے مین اسٹریم میڈیا میں کوئی خاص بات نہیں اٹھائی گئی بلکہ مسلمانوں سے نفرت پر مبنی حالات اور کھلے عام بڑھتی ہندو دہشت گردی کی رپورٹس کو دبا دیا گیا تھا۔ بھارت میں درجہ دوم کے میڈیا نے تاہم اس پر کچھ بات کی تھی مگر وہ بھی زیادہ نہیں بول سکے اور پھر یہ حقائق دفن ہو گئے، البتہ مودی نے بھارت کے معروف شو میں ہرزہ گوئی کرتے ہوئے نہ صرف ان فسادات کا سہرا اپنے سر سجایا بلکہ اعلان کیا تھا کہ اگر میں وزیر اعظم بنا تو میں وہی سب کچھ کروں گا جو میں نے گجرات میں کیا تھا۔ ذرائع اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اوپر بیان کردہ اعداد اصل میں ہونے والے نقصان سے بہت کم ہیں، یہ اعداد اُس نقصان کے ہیں ، جو کسی نہ کسی طرح سامنے آ گئے، گجرات میں بہت سی گمنام قبریں آج بھی گجرات کے اس بے رحم قسائی کی جارحیت کا نوحہ سناتی ہیں۔
آج بھارت میں جو کچھ بھی مسلمانوں کو نشانہ بنا کر کیا جا رہا ہے، اس کے پیچھے ملک سے اقلیتوں کو ختم کرکے بی جے پی کی ہندوتوا پالیسی کے تحت ملک کو خالص ہندو ریاست بنانے کا منصوبہ موجود ہے۔ کشمیر میں کرفیو کو 215 سے زائد دن ہو چکے ہیں۔ وہاں معاشی پہیہ بالکل جام ہے، اربوں روپے کا اب تک نقصان ہو چکا ہے، ہزاروں افراد لاپتا اور سیکڑوں شہید کیے جا چکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ بھی بالکل بند ہے۔ میڈیا کو حالات دیکھنے یا سامنے لانے کی بالکل اجازت نہیں۔ خوف کا یہ عالم ہے کہ نامور صحافیوں اور اہم شخصیات کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھی کشمیر کے معاملے پر بالکل خاموش ہیں۔ گجرات کے اس قسائی نے جب یہ کام کامیابی سے کر لیا تو اس نے دوسرے مرحلے میں شہریت سے متعلق مسلم مخالف متنازع ترین قانون پاس کرا لیا جس کے نتیجے میں اگر آپ مسلمان ہیں تو خود کو بھارتی شہری ثابت کرنا ہوگا۔ اس متنازع بل نے بھارت میں آگ لگا د ی ہے۔ نیو دہلی میں شروع ہونے والا احتجاج تاحال تادم تحریر جاری ہے اور اپنے حق کے لیے مظاہرہ کرنے والوں پر ہندو دہشت گردوں کی جانب سے حملے کیے جا رہے ہیں جبکہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں۔ یہ سارا تشدد صرف مسلمانوں کے خلاف ہے، بلکہ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ریاست کی نگرانی میں مسلمانوں کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل جاری ہے۔
دہلی میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے بعد تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں ہوشربا انکشافات سامنے آئے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ نئی دہلی میں مسلمانوں پر حملوں کے لیے 2 ہزار سے زائد ہندوانتہا پسندوں کو باہرسے لایاگیا جنہیں شیو وہار میں ساتھ ساتھ واقع 2 اسکولوں میں ٹھہرایا گیا تھا۔ دونوں اسکولوں میں رات گئے ماسک اور ہیلمٹ پہنے مسلح دہشت گردوں نے قریب گھروں اوردکانوں پر پیٹرول بم بھی پھینکے۔ تحقیقاتی کمیشن کا کہنا تھا کہ صرف مسلمانوں کی دکانوں اورگھروں کو چن چن کرلوٹا اور جلایا گیا۔ 122 مکان، 322 دکانیں اور 300 گاڑیوں کو آگ میں پھونک دیا گیا جبکہ 4مساجد شہید، 5 گودام، 3 فیکٹریاں اور 2 اسکول جلا دیے گئے۔ ان 3 دنوں میں ہندوؤں کی دکانیں محفوظ رہیں اور یہ سب کچھ سوچی سمجھی سازش تھی۔ دہلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق دہلی میں تشدد یکطرفہ منصوبہ تھا، اور فسادات کے لیے تمام اونچی عمارتوں پر قبضہ کیا گیا۔ تحقیقاتی ٹیم جہاں بھی گئی دیکھاکہ مسلمانوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایاگیا۔
مسلم مخالفت میں مودی کے اعلان کردہ متنازع بل پر البتہ کشمیر کے معاملے جیسی خاموشی نہیں ہے۔ اس پر بھارت میں ہندو اور دیگر اقلیتیں بھی گجراتی قسائی کے منفی اور نفرت پر مبنی غیر قانونی اقدامات کی مخالفت کررہی ہیں، تاہم مختلف مکاتب فکر سے وابستہ اہم شخصیات کی زبان اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس پراسرار طور پر بالکل خاموش ہیں۔ میڈیا میں تو یہ بھی رپورٹ ہوا ہے کہ دہلی کے فسادات میں پولیس اور خفیہ ایجنسیاں ہندو انتہا پسند دہشت گردوں کی معاون ہیں ۔ یہ مسلمانوں کر پکڑ کر بلوائیوں کے حوالے کر دیتی ہیں اور خود موقع سے دُور ہٹ کر اُن کے قتل ہونے کا انتظار کرتی ہیں اور پھر یہ درندے مسلمانو ں کو اذیت دے کر قتل کرتے ہیں ۔
ماہرین کی رائے ہے کہ دہلی تو ابھی صرف نقطہ آغاز ہے۔ چونکہ مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہیں، لہٰذا گجرات کے قسائی نےسب سے پہلے ان ہی پر ہاتھ ڈالا ہے تاکہ یہ اندازہ ہو جائے کہ مخالفت کی کیا فضا ہے، اس کے بعد سکھ، عیسائی ، بدھ مت اور دیگر اقلیتوں کی باری بھی آنی ہے۔ عین ٹرمپ کے دورے کے موقع پر اور وہ بھی اُس وقت جب ٹرمپ دہلی ہی میں موجود تھا، فسادات میں تیزی آنا درحقیقت پوری دنیا کے لیے واضح پیغام تھا کہ گجرات کے قسائی مودی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کون اس کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔ خود سوچیں کہ ٹرمپ جیسے بدتمیز اور منہ پھٹ انسان سے جب غیر ملکی میڈیا کے نمایندے نے اس متنازع قانون سے متعلق سوال کیا تو اس نے اِس کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے کر بات ہی گول کر دی تھی ۔
بھارت میں نہ صرف ایسے حالات پیدا کردیے گئے ہیں بلکہ سیاست دانوں، سیاسی کارکنوں اور یہاں تک کہ پولیس کی زبان سے بھی کھلے عام کہا جا رہا ہے کہ مودی کے بھارت میں اگر کسی نے زندہ رہنا ہے تو اُسے ہندو بن کر ہی جینا ہوگا۔ اگر عالمی طاقتو ں کی بے حسی اور مسلم ممالک کی خاموشی کے نتیجے میں بی جے پی اپنے اس ناپاک یجنڈے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو بھارت میں مسلمانوں کو غلامی کرنی پڑے گی اور پھر یہ معاملہ ختم نہیں ہوگا بلکہ آیندہ جو بھی حکومت مستقبل میں بھارت میں حکومت بنائے گی وہ ایسے ہی مسلمانوں اور اقلیت کا استیصال جاری رکھے گی۔
مودی سرکار نے صرف نفرت کی بنیاد پر اقدامات کرکے اپنی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیاہے۔ تیزی سے معاشی طور پر ابھرتاہوا بھارت تنزلی کے راستے پر بھی اُسی رفتار سے گام زن ہو چکا ہے۔ غیر ملکی ادارے وہاں سے اپنا سرمایہ نکالنے اور نائیجیریا سمیت دیگر ممالک میں منتقلی پر غور کر رہے ہیں۔ بھارت میں غربت پہلے ہی بہت زیادہ ہے اور اگر غیر ملکی سرمایہ کاری بھی نکل جاتی ہے تو ہندوتوا کا خواب دیکھنے والے حکمرانوں اور ان کے نام نہاد جمہوری ملک کی نہ صرف کمر ٹوٹ جائے گی بلکہ اس کا نقشہ بھی کئی ریاستوں میں تقسیم ہوتا نظر آ را ہے۔ گلی گلی ہنگامے اور فسادات ہوں گے۔ خطے خصوصاً بھارت کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ماہرین نے بھارت کے زوال کی پیش گوئی کردی ہے۔