نعمت اللہ خان… خدمت کا استعارا

487

نعمت اللہ خان یکم اکتوبر 1930ء کو پیدا ہوئے۔ اس لحاظ سے اُن کی عمر 90 سے کچھ کم تھی۔ یہ عمر تو ایسی تصور کی جاتی ہے جس میں انسان کمزور اور ضعیف ہو کر بستر کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ لیکن ان پر قدرت کی خاص مہربانی تھی یا یہ کہ وہ جو اپنا وقت مخلوق خدا کی خدمت اور فلاح کے لیے وقف کردیتے ہیں تو انہیں قدرت بھی کچھ خاص قوتیں عطا کرتی ہے۔ لہٰذا وہ بھی اس عمر میں پورے ہوش و حواس کے ساتھ چلتے پھرتے خدمت کے کاموں میں لگے رہے تھے سوائے آخری چند ماہ کے۔ یہ پچھلے مارچ کی بات تھی کہ انہوں نے الخدمت کے ہیڈ آفس کا افتتاح کیا تھا۔ اگر یہ کہا جاتا ہے کہ نعمت اللہ خان کا دوسرا نام خدمت تھا تو غلط نہیں تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی کو خدمت کے کاموں کے لیے وقف کردیا تھا اور یہ کوئی چند سال کی نہیں عشروں کی بات تھی۔ وہ پکے اور سچے مہاجر تھے۔ قیام پاکستان کے وقت آپ کے خاندان نے شاہ جہاں پور انڈیا سے ہجرت کی اور کراچی میں بسیرا کیا۔ انتہائی مشکل وقت گزارا۔ کراچی میں ان کی پہلی رات فٹ پاتھ پر گزری پھر اہل خانہ بہن بھائی اور والدین کے ساتھ ایک کمرے کے گھر میں رہے لیکن تعلیم سے ناتا جوڑے رکھا۔ سخت جدوجہد کی تعلیم کے ساتھ پارٹ ٹائم ملازمت اور ٹیوشن کے ذریعے گھر کو چلانے میں والدین کی مدد کی۔
پاکستان آمد کے بعد 10 سال کے اندر جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے۔ رکنیت کا حلف پروفیسر غفور سے مسجد نبوی میں اُٹھایا۔ 1985ء سے حکومتی ایوان یعنی سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ایک لمبے عرصے تک اقتدار کے قریب رہے لیکن کبھی کسی زمانے میں اُن پر بددیانتی کا کوئی الزام نہ لگا۔ کراچی جیسے شہر کے میئر بنے، اربوں روپے کے خزانے ہاتھ میں تھے لیکن مجال ہے کہ کبھی کسی کو کرپشن کا الزام لگانے کی جرأت ہوئی ہو۔ بلکہ آج ان کے جانے کے بعد پیپلز پارٹی کے وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ گواہی دیتے ہیں کہ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے دور میں بلدیاتی اداروں واٹر بورڈ، کے ایم سی اور کے ڈی اے کے پاس خزانے میں اربوں روپے موجود تھے۔ ان کے بعد تمام اداروں کے خزانے خالی ہوگئے اور بات یہاں تک پہنچی کہ اب یہ ادارے مقروض ہوگئے۔ کون تھا جو ان کی دیانت اور خدمت کی گواہی دینے کے لیے تیار نہ تھا، ہر سیاسی رہنما خواہ کسی جماعت سے تعلق رکھتا ہو، دانشور، میڈیا پرسن، بلدیہ کراچی کا ہر چھوٹا بڑا افسر کراچی کے لیے اُن کی ناقابل فراموش خدمات کے گن گاتا ہے، ان کی ایمان داری اور محنت کو یاد کرتا ہے، وہ الخدمت کے لیے اپنی انتھک محنتوں اور بے مثال خدمت سے جیسے بے لوث خدمت کا استعارا بن گئے ہیں۔ انہوں نے فلاح وبہبود کے جو کام کیے وہ اُن کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔ کراچی کے لیے اُن کے منصوبوں نے کراچی کو ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بنایا۔ اس سے پہلے جماعت اسلامی کے پہلے میئر عبدالستار افغانی نے کراچی کے لیے ایسا کام کیا تھا کہ ان کے مخالفین بھی ان کی کوششوں کا اعتراف کرتے تھے۔
نعمت اللہ خان نے اپنی تقریب حلف برداری میں کہا کہ وہ ہر ایک کو ساتھ لے کر چلیں گے اور بلاتخصیص سب کے لیے کام کریں گے۔ اس بات کو انہوں نے مکمل طور پر نبھایا۔ اپنے حامی ہوں یا مخالفین سب کے لیے کام کیا۔ کراچی کے عوام پر اپنے دور میں مزید کوئی ٹیکس نہ لگانے یا کوئی اضافہ نہ کرنے کا قول دیا اور اس کو اپنے پورے نظامت کے دور میں نبھایا۔ 2002ء کے مالی سال کا بجٹ بحیثیت میئر پیش کیا تو نہ صرف یہ کہ وہ ٹیکس فری بجٹ تھا بلکہ گزشتہ دور کے مقابلے میں 15 ارب زیادہ کا بجٹ تھا۔ پھر بھی اخراجات کے مقابلے میں آمدن زیادہ تھی اور یہ ان کی ایک بڑی کامیابی تھی۔ 2003ء میں جو بجٹ دیا وہ پچھلے سال 7 ارب زیادہ کا تھا، جس میں اخراجات کے بعد کروڑوں روپے کی بچت بھی تھی۔ حالاں کہ شہر بھر میں 58 ترقیاتی منصوبے اس میں شامل تھے۔ آج اگر وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کہتے ہیں کہ نعمت اللہ خان کے دور میں خزانے بھرے ہوئے تھے تو ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ تیسرے اور چوتھے سال پھر کراچی کے بجٹ میں اربوں کا اضافہ کیا اور پھر بھی ٹیکس فری بجٹ پیش کیا، یوں کراچی کے بجٹ کو اپنے پہلے سال کے بعد آخری سال میں دو گنے سے زیادہ تک پہنچا دیا یعنی پہلے سال 20 بیس ارب کا اور آخری سال بیالیس ارب کا بجٹ پیش کیا۔ ان کی کامیابی جماعت اسلامی کی کامیابی تھی۔ اُن کی پشت پر جماعت اسلامی کا مکمل میکنزم تھا۔ اگر کراچی میں انتخابات منصفانہ ہوتے تو کسی کو شک نہ تھا کہ نعمت اللہ خان دوبارہ میئر کی کرسی پر بیٹھتے اور اپنی خدمات کا سلسلہ جاری رکھتے۔ اگر ایسا ہوتا تو کراچی ترقی کی وہ منازل طے کرتا جس کے خواب دیکھے جاتے تھے اور ہیں وہ ایک اپنے میئر تھے جو حقیقت میں بابائے کراچی کہلانے کے حق دار ہیں۔
بہرحال فرد آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، لیکن ادارے اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ جماعت اسلامی اور اُس کے تحت الخدمت اپنی جگہ موجود ہے۔ اپنی دیانت، بے لوث خدمت اور بے غرض غم گساری اور رہنمائی کے ساتھ کراچی کی آبادی کے ہر کوچے میں اور گلی محلوں میں۔ بس دیکھنا ہے کہ کیا کراچی کو اب کے منصفانہ انتخاب کی آزادی مل پائی ہے یا نہیں؟۔