اسلام آباد ہائیکورٹ:عورت مارچ روکنے کی درخواست خارج

248

اسلام آباد(صباح نیوز)اسلام آباد ہائی کورٹ نے عورت مارچ کو رکوانے کیلیے دائر درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کردی۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے تحریری فیصلہ جاری کردیا جو 8 صفحات پر مشتمل ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عورت مارچ کا اعلان کیا گیا، توقع ہے کہ عورت مارچ کے شرکا شائستگی برقرار رکھتے ہوئے آئینی حق استعمال کریں گے۔فیصلے میں کہا گیا کہ عورت مارچ کے شرکاء ان کے ارادوں پر شک کرنے والوں کو اپنے عمل سے غلط ثابت کریں۔دوران سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ عورت مارچ کو مثبت انداز میں دیکھیں، خواتین نے پریس کانفرنس میں واضح کردیا ہے کہ وہ اسلام میں دیے گئے اپنے حقوق مانگ رہی ہیں۔خیال رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں 8 شہریوں کی جانب سے ایک درخواست جمع کرائی گئی جس میں وفاق کو بذریعہ وزارت داخلہ، چیف کمشنر، چیئرمین پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(پیمرا)اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی(پی ٹی اے )کو فریق بنایا گیا تھا۔درخواست میں کہا گیا تھا کہ آزادی کے نام پر بے ہودگی کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آئین پاکستان کہتا ہے کہ پاکستان کا ریاستی مذہب اسلام ہوگا، 8 مارچ کو غیرآئینی، غیرقانونی، غیراسلامی اور غیراخلاقی عورت مارچ ہونے جا رہا ہے۔درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ آزادی کے نام پر بے ہودگی کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے، پہلے بھی عورت مارچ ہوا جس میں اٹھائے گئے پوسٹرز پر درج نعرے اسلام، آئین، قانون اور اخلاقیات کے خلاف تھے۔شہریوں نے اپنی درخواست میں عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ فریقین کو عورت مارچ روکنے کا حکم جاری کرے۔ان ہی شہریوں کی جانب سے دائر درخواست کے میرٹ پر جمعہ کوابتدائی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ میں مارچ میں لگنے والے 3 نعرے اس عدالت کے سامنے رکھتا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر 8 مارچ کو کچھ خلاف قانون ہوتا ہے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی، درخواست گزار قبل از وقت اس عدالت سے ریلیف مانگ رہے ہیں، ہمارے معاشرے میں کئی دیگر اسلامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہو رہی ہے، عدالت امید کرتی ہے کہ درخواست گزاران تمام اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے بھی عدالت سے رجوع کرینگے۔اس موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عورتوں کے نعرے تو وہی ہیں جو اسلام نے ان کو حقوق دیے وہ دیے جائیں، ان کے نعروں کی کیا ہم اپنے طور پر تشریح کرسکتے ہیں؟ ۔انہوں نے درخواست گزار کے وکیل سے سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ کس نے بچیوں کو زندہ دفن کرنے کے رواج کو ختم کرایا؟۔درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بچیوں کو زندہ دفن کرنا ختم کرایا۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آج بھی ہمارے معاشرے میں بچیوں کے پیدا ہونے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا، یہ بات سوچنی ہوگی۔ ضروری ہے کہ آپ اس عورت مارچ کو مثبت انداز میں دیکھیں، آپ یہ بتائیں کہ ہم کتنی خواتین کو وراثتی حقوق دے رہے ہیں۔ عدالت نے بعد ازاں درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ جسے کچھ دیر بعد سنادیا گیا اور عورت مارچ رکوانے کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کردی گئی۔