تہران(صباح نیوز)ایران کی اعلیٰ ثقافتی کونسل نے بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام کی مذمت کرتے ہوئے اس طرح کے جرائم کے خلاف ٹھوس کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ایرانی میڈیا کے مطابق ایران کی اعلی ثقافتی کونسل کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک ایسے وقت جب دنیا کرونا وائرس سے برسر پیکار ہے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ عدم رواداری اور انتہا پسندی کی بیماری نے پوری دنیا کے لوگوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے-بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے مسلمانوں نے پوری تاریخ میں ملک کی دیگر اقوام کے ساتھ پرامن اور بھائی چارے کی زندگی گذاری ہے اور بر صغیر کی تہذیب و تمدن کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اب جب یہی مسلمان شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں تو انہیں انتہا پسند ہندوں کے خونیں حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے-ایران کی اعلی ثقافتی کونسل کے بیان میں کہا گیا ہے کہ آج بھارت کے فسادات کے بارے میں عالمی میڈیا میں جو کچھ آرہا ہے اس سے بلا شبہہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں نسل کشی کی جارہی ہے اور انسانیت کے خلاف کھلے جرائم کا ارتکاب ہورہا ہے-بیان میں اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بھارت کے فسادات میں ہوئے انسانوں کے قتل عام پر اپنا ردعمل ظاہر کریں اور اس طرح کے جرائم کی روک تھام کے لئے اپنی پوری توانائی بروئے کار لائیں،علاو ہ ازیں ایران کے اسپیکر ڈاکٹر علی لاریجانی نے بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ایک بیان میں ڈاکٹر علی لاریجانی نے حکومت بھارت پر زور دیا کہ وہ موجودہ کشیدگی کو پرامن طریقے سے ختم کرانے کے لیے اپنی پوری توانائیاں بروئے کار لائے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان بھارتی سماج کا حصہ ہیں اور اس ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ایران کے اسپیکر نے کہا کہ بھارت میں نئے شہریت قانون سے جو تصور ابھرا ہے وہ یہ ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا کرے گا، جس کی وجہ سے مسلمانوں میں خاصی بے چینی پائی جار ہی ہے۔ ڈاکٹر علی لاریجانی نے کہا کہ بھارت مختلف نسلوں، زبانوں، مذاہب اور ثقافتوں کا حامل ملک ہے لہذا اس قسم کے مسائل اور مشکلات بھارت کی تہذیبی اور ثقافتی روح کے منافی ہیں۔ ایران کے اسپیکر نے تہران اور نئی دہلی کے درمیان تعلقات کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں آباد تمام قومی اور مذہبی گروہوں کے درمیان ڈائیلاگ اور بھائی چارے کا فروغ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔