اسلام آباد(آن لائن)عدالت عظمیٰ میں ورکرز ویلفیئر فنڈز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ پنجاب میں لاکھوں ورکرز ہیں پیسے صرف 2153 پر خرچ کیوں ہو رہے ہیں،ورکرز کے معاملے میں بھی سب نے اپنے کام چمکا رہے ہیں،ورکرز ویلفیئر فنڈز میں بھی ایک کلاس ہے، غریبوں کو کچھ ملتا ہی نہیں ہے،کیا کبھی کسی نے فیکٹریوں میں جاکر تمام ورکرز کو بتایاان کو پیسے دینے کا کیا طریقہ کار ہے، ورکرز بچوں کی شادیوں پرکیا کرتے ہیں،کروڑوں میں سے چند ہزاروں ورکرز کو نوازا جا رہا ہے، صرف اپنے لوگوں کو نوازنے کے لیے ڈھونڈتے ہیں، پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے ساتھ ضرور ڈائریکٹر صاحب آپ کا کوئی معاہدہ ہوگا،پنجاب سے متعلق جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 4.88 ارب روپے دیے گئے ہیں، کیا کسی نے دیکھا کہ یہ پیسہ اصل لوگوں کے پاس جارہا ہے؟آزاد کشمیر میں پنجاب کے 1.90 ارب روپے کیسے گئے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ سندھ ہائیکورٹ میں 219 مقدمات زیر التوا ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جمع ہونے والی رقم ایف بی آر کے پاس جاتی ہے اور پھر حکومت کے پاس،ورکرز ویلفیئر ایک اتھارٹی ہے، ای او بی آئی سیکورٹی کارڈ جن کے پاس ہوتے ہیں وہ اپلائی کر سکتے ہیں۔ڈائریکٹر ورکرز ویلفیئر بورڈ نے ورکرز کے بچے پورے ملک میں پڑھتے ہیں،ہر ورکر اہل ہے جو 3 سال سے ملازمت کر رہا ہو۔عدالت نے تمام صوبوں سے ورکرز ویلفیئر فنڈز سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرنے سمیت ڈبلیو ڈبلیو ای کے 1.75 ارب کی واپسی پر جواب طلب کر لیا ہے ۔عدالت فنڈز سے بنائے گئے 8000گھروں کی رپورٹ بمع تصاویر بھی مانگتے ہوئے ،پنجاب میں چلنے والی فیکٹریوںاور ان کام کرنے والے ورکرزکی تفصیلات بھی طلب کرتے ہوئے معاملے کی سماعت ایک ماہ تک کے لیے ملتوی کر دی ہے ۔