کہاں سے لائو گے ایسا رہنما دوستو

667

26فروری بروز بدھ ادارہ نور حق کے نزدیک نیو ایم اے جناح روڈ پر نعمت اللہ خان کی نماز جنازہ میں بہت سارے ایسے نئے چہرے تھے جن کو کبھی جماعت کے کسی پروگرام میں نہیں دیکھا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ جماعت کے کارکنان اور ہمدردوں کے علاوہ ایسے عام افراد کی بھی شرکت ہوئی ہے جن کا کبھی نہ کبھی کسی کام کے حوالے سے رابطہ ہوا اور نعمت صاحب کے اخلاق اور ان کے محبت آمیز رویے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ہو۔ نعمت اللہ صاحب جماعت کے ان رہنمائوں میں سے تھے جن سے ملنا آسان اور گفتگو میں کسی قسم کی کوئی جھجک نہیں ہوتی تھی۔ 1992میں جب یہ سابقہ ضلع وسطی (اب اس کے تین اضلاع بن چکے ہیں) کے امیر تھے، اور میں زون لیاقت آباد کا نائب امیر تھا جب نئے سال کی ذمے داریوں کا ضلعی شوریٰ میں فیصلہ ہوا تو نعمت اللہ صاحب نے زون لیاقت آباد کی ذمے داری مجھے دینے کی تجویز دی جو شوریٰ نے منظور کرلی میں نے اس وقت اپنی مصروفیت کی بنیاد پر معذرت کی لیکن سنی نہیں گئی کچھ دنوں بعد نعمت صاحب کراچی کے امیر ہوگئے، میں نے ادارہ نور حق میں ان سے ملاقات کی اور کہا کہ جسارت سے فارغ ہو کر نیا کاروبار شروع کیا ہے اس لیے میں زون کی ذمے داری شاید پوری طرح ادا نہ کرسکوں۔ انہوں نے کہا کہ اب آپ کے لیے دوبارہ شوریٰ اور نظم ضلع کے اجلاس بلائے جائیں سارے پراسیس کو دوبارہ کرنا مشکل ہے آپ ہمت کرکے کام کیجیے اللہ مدد کرنے والا ہے۔
کچھ دنوں بعد ادارے سے قریب مسجد طیب کی سیڑھیوں پر نماز عصر کے بعد ملاقات ہوئی تو انہوں نے پوچھا کہ اب آپ کا کاروبار کیسا چل رہا ہے، میں نے کہا کہ الحمدللہ بہت اچھا چل رہا ہے اور جیسا کہ میں نے سوچا تھا کہ نئی ذمے داریوں کی مصروفیات کی وجہ سے کاروبار پر شاید کوئی منفی اثرات پڑیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کا الٹ ہی ہوگیا کہ یہ پہلے سے کچھ بہتر ہو گیا، انہوں نے کہا ایسا ہوتا ہے پھر انہوں نے اپنی بات بتائی میں اپنا جو کام کررہا تھا کافی عرصے سے میری خواہش تھی میرا کوئی بیٹا یہ کاروبار سنبھال لے لیکن کوئی اس طرف نہیں آیا بلکہ سب نے اپنی اپنی پسند کاروبار کرلیے، پھر مجھ پر کراچی کے امیر کی ذمے داری آئی تو گھر میں بچوں سے کہا کہ میں اپنا کاروبارختم کررہا ہوں تاکہ یکسوئی کے ساتھ تحریک کا کام کرسکوں میرے ایک بیٹے نے کہا میں آپ کا کاروبار سنبھالوں گا، چنانچہ اس نے یہ کاروبار نہ صرف سنبھالا بلکہ پہلے سے زیادہ بہتر انداز میں اس کو آرگنائز کیا ہم تو مینوئل کام کرتے تھے اس نے سارا سلسلہ کمپیوٹر میں منتقل کردیا اور اب اسی کا زمانہ ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے میری اس خواہش کو بھی پورا کیا کہ میرا انکم ٹیکس کے کام کا سلسلہ جاری رہے ان کا اشارہ ندیم اقبال بھائی کی طرف تھا۔ ندیم بھائی جب تعلیم سے فارغ ہوئے تو انہوں نے کیمیکل کا بزنس شروع کیا تھا اس میں ان کو کوئی پریشانی نہیں تھی بلکہ بہتر انداز میں کام کررہے تھے لیکن اپنے والد صاحب کی خواہش کو دیکھتے ہوئے انہوں نے کیمیکل کا بزنس چھوڑ کے نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کمپنی کو سنبھال لیا اور اب اس کو بہت اچھے انداز میں چلا رہے ہیں، نعمت صاحب نے اپنے نارتھ ناظم آباد والے بنگلے کی وراثت کو اپنی زندگی ہی میں تقسیم کردیا وہ اس طرح کہ ندیم بھائی اور ایک دوسرے بھائی نے مل کر اسے اپنی ملکیت میں لے لیا اور بھائی بہنوں کا جو حصہ بنتا تھا وہ انہیں ادا کردیا۔ نعمت اللہ صاحب 1992 سے 2001 تک جماعت اسلامی کراچی کے امیر رہے جو تمام امرائے کراچی میں سب سے زیادہ مدت اور یہ بڑا مشکل دور تھا جب شہر میں ایم کیو ایم کی دہشت گردی اپنے عروج پر تھی جماعت جمعیت کے کئی ساتھیوں کی ٹارگٹ کلنگ ہورہی تھی۔ نعمت صاحب نے بڑی حکمت اور تدبر سے اس دور کو گزارا۔
ایک دفعہ بڑا اہم واقعہ ہوا جو ایک زندہ اور بیدار قیادت کی نشان دہی کرتا ہے ناظم آباد سے جمعیت کے ایک کارکن کو ایم کیو ایم کے دہشت گردوں نے اغوا کیا وہیں ایک فعال متحرک اور بڑے با ہمت اورجیدار کارکن اسرار صاحب تھے جنہوں اس بچے کو اغوا ہوتے دیکھا اور انہوں نے ان اغوا کرنے والے دہشت گردوں کا پیچھا کیا کہ دیکھیں یہ اس بچے کو کہاں لے کر جاتے ہیں معلوم ہوا کہ وہ اس کو سیکٹر آفس لے گئے ہیں، اسرار صاحب فوراً نعمت اللہ صاحب جو اس وقت کراچی کے امیر تھے کے گھر پہنچے اتفاق سے نعمت صاحب گھر پر مل گئے اسرار صاحب نے کارکن کے اغوا کا سارا ماجرا بیان کیا نعمت صاحب نے پوچھا آپ نے وہ جگہ دیکھی ہے جہاں اس بچے کو لے گئے ہیں، اسرار بھائی نے کہا کہ ہاں میں نے دیکھی ہے نعمت صاحب نے اپنی کار نکالی اور انہیں ساتھ لے کر سیکٹر آفس پہنچے، یہ کوئی آسان کام نہ تھا بڑے بڑے لوگوں کی اس وقت سیکٹر کیا یونٹ آفس جاتے ہوئے بھی روح کانپتی تھی نعمت صاحب نے سیکٹر آفس کا دروازہ کھٹکھٹایا ایک لڑکا آیا نعمت صاحب نے اپنا تعارف کرایا کہ میں نعمت اللہ خان ہوں اور جماعت اسلامی کراچی کا امیر ہوں ابھی جماعت کے جس نوجوان کو تم لائے ہو اسے میرے حوالے کرو اس لڑکے نے جواب دیا ایسا کوئی لڑکا نہیں آیا پھر اندر چلا گیا ایک دوسرا لڑکا آیا اس سے بھی نعمت صاحب نے اپنا اسی طرح تعارف کرایا جیسا پہلے کرایا تھا اس لڑکے نے جواب دیا ہم کوئی لڑکا لے کر نہیں آئے اسرار بھائی نے کہا نعمت صاحب یہی وہ لڑکا ہے جس نے میرے سامنے اس کو اغوا کیا اور ساتھ لے کر آیا ہے وہ لڑکا کچھ دیر خاموش رہا جیسے اس کی سٹی گم ہو گئی ہو پھر وہ اندر گیا جمعیت کے اس کارکن کو ساتھ لے کر آیا اور نعمت صاحب کے حوالے کیا، نعمت صاحب اپنی گاڑی میں ساتھ بٹھا کر اس بچے کو اس کے گھر چھوڑ کر آئے اور اس کو ہدایت کی ذرا احتیاط سے کام لو۔ اسرار صاحب ناظم آباد کے بڑے دبنگ کارکن تھے مجھ سے بھی ان کی اچھی سلام دعا تھی، نمائش پر خواتین کوئی مظاہرہ تھا جس میں ان سے علیک سلیک ہوئی پھر کچھ دن کے بعد وہ اپنے گھر کے سامنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے دہشت گردوں نے انہیں شہید کردیا وہ ایسے جیدار کارکن تھے ایسے خطرناک علاقوں سے کھال لے کر آتے تھے جہاں کوئی اور جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔
نعمت اللہ خان کا یہ واقعہ جب میں نے سنا تو مجھے دور نبویؐ کا وہ واقعہ یاد آگیا کہ ایک یتیم بچہ خانہ کعبہ میں قریش کے سرداروں کے پاس پہنچا اور کہا کہ ابوجہل نے میرا سامان رکھ لیا ہے اور وہ واپس نہیں کررہا آپ لوگ یہ واپس دلا دیں وہ بچہ یہ سوچ کر ان کے پاس گیا کہ یہ مکے کے بڑے سردار ہیں میرا مسئلہ حل کرادیں گے لیکن ان سرداروں نے اس بچے کے ساتھ سنگدلانہ مذاق کیا اور محمدؐ کی طرف اشارہ کرکے کہا ان کے پاس جائو وہ تمہیں ابوجہل سے سامان دلا دیں گے وہ بچہ آپؐ کے پاس آیا اور اپنی بپتا سنائی کہ ابوجہل نے میرا سامان رکھ لیا اور مجھے دے نہیں رہا ہے، نبی کریم ؐ اس بچے کو ساتھ لے کر ابوجہل کے گھر گئے اسے باہر بلایا وہ جب آیا تو آپ ؐ نے کہا کہ اس بچے کا سامان تمہارے پاس ہے لا کر دے دو وہ خاموشی سے اندر گیا اور اس بچے کا سامان لا کر اسے دے دیا مکے کے وہی سردارن جنہوں نے اس بچے کو آپ ؐ کے پاس بھیجا تھا دور سے یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے کہ اب کوئی جھگڑا ہو گا بعد میں انہوں نے ابوجہل پر طعنہ زنی کی اور کہا تم نے سامان کیوں واپس کیا ابوجہل نے جواب دیا مجھے ایسا دکھ رہا تھا کہ کوئی دو ہیبت ناک لوگ ایک بڑا سا چھرا لیے میری طرف بڑھ رہیں کہ اگر میں نے انکار کیا تو وہ مجھ پر حملہ کردیں گے، اس لیے میں نے وہ سامان واپس کردیا۔