پاکستان کی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن نے سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے پاکستان میں نئے قوانین بنالیے ہیں۔ یہ 2016ء میں ’’شہریوں کو آن لائن نقصان سے بچائو کے قواعد‘‘ کے نام سے پارلیمنٹ میں پاس کیے گئے۔ الکٹرونک کرائم ایکٹ میں شامل کیے۔ اس کے تحت حکومت نے سوشل میڈیا کمپنیوں پر متعدد ذمے داریاں ڈالی ہیں۔ مثلاً سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان کی مذہبی، ثقافتی، نسلی اور قومی سیکورٹی کی حساسیت کو سمجھیں گی۔ ایسا تمام آن لائن مودا جو فیک نیوز ہو کسی کی ہتک عزت کی گئی ہو یا پاکستان میں قومی سلامتی کے خلاف ہو فوراً حذف کردیں گے۔ سب سے اہم یہ کہ وہ بارہ ماہ کے اندر اندر پاکستان میں اپنا سرور بنائیں گے، دفتر کھولیں گے، جس کا ایک مستقل پتا ہوگا۔ یہ ایک اچھی بات ہوگی کیوں کہ جب سوشل میڈیا کے دفتر پاکستان میں ہوں گے تو وہ یہاں کے قوانین کے دائرہ اختیار میں آئیں گی اور ان پر قوانین لاگو ہوں گے۔ انڈیا سمیت مختلف ممالک میں سوشل میڈیا کمپنیوں کے دفاتر موجود ہیں، حکومتوں سے اُن کے معاہدے ہوتے ہیں جن کے تحت سوشل میڈیا پرسے چیزیں ہٹانے سے لے کر دوسری درخواستوں پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ بیچز اور چینل بند کیے جاتے ہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر فیس بک، ٹیوٹر، یوٹیوب اور گوگل جیسی بڑی کمپنیوں کو بڑے بڑے جرمانے لگ جاتے ہیں۔
دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ مواد کہاں سے آرہا ہے؟ کون پوسٹ کررہا ہے؟ اور وہ مواد ہمارے لیے ٹھیک ہے یا نہیں؟ بات اہم ہے۔لیکن اس کے ساتھ ’’پورن بلاکنگ سروسز‘‘ کی فراہمی کی بات بھی کرنا ضروری ہے۔ حکومت کو اس سمت میں سنجیدگی سے توجہ دینا ہوگی۔ یہ معاشرے میں اصلاح اور نوجوانوں کے بہتر مستقبل کے لیے ایک انتہائی ضروری نکتہ ہے۔ اس ماہ جرمنی میں بھی سوشل میڈیا کے لیے سخت قوانین نافذ کیے گئے ہیں۔ جرمنی کی کابینہ ان قوانین کے مسودے پر متفق ہوگئی ہے۔ کیوں کہ سوشل میڈیا ملکوں کے مفادات اور سیکورٹی کے معاملے میں بھی ایک سنگین دھمکی کی طرح ہے، سامنے کی بات ہے۔ یہ بڑی بڑی سوشل میڈیا کی کمپنیاں اپنے اخراجات کے لیے روپیہ کیسے حاصل کرتی ہیں۔ ظاہر ہے وہ اپنے صارف کا ڈیٹا فروخت کرتی ہیں۔ بظاہر اشتہاری کمپنیاں اُسی ڈیٹا کی بنیاد پر صارف کے اکائونٹ پر اشتہارات بھیجتی ہیں لیکن یہ ڈیٹا کوئی بھی خرید سکتا ہے۔
’’سوشل نیٹ ورکنگ جائنٹ‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019ء کے پہلے 6 ماہ میں حکومتوں کی طرف سے صرف فیس بک کو صارفین کی معلومات کے حصول کی 22684 درخواستیں موصول ہوئیں۔ ان درخواستوں کو بھیجنے والے ممالک میں امریکا کے بعد بھارت دوسرے نمبر پر تھا۔ اس کا آسان سا مطلب یہ ہے کہ ہماری ذاتی معلومات سرچ انجنوں اور ویب سائٹس کے ذریعے کاروباری اور اشتہاری کمپنیوں کو پہنچ رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ معلومات کسی تیسری پارٹی کو بھی پہنچ رہی ہے۔ یہ ممکن ہے اور انٹرنیٹ کمپنیاں اس سے انکار نہیں کرسکتیں۔ سوشل میڈیا کے استعمال کرنے والوں کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ یہ دو دھاری تلوار ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں سوشل میڈیا کے مواد کو فلٹر کرنے کا کوئی انتظام کرنا چاہیے۔ دوسری طرف عوام میں بھی اس کے لیے سمجھ اور بیداری پید اکرنا چاہیے۔سوشل میڈیا دیگر مشینی آلات کی طرح کے آلات ہیں۔ ان سے منفی اور مثبت دونوں کام ہوتے ہیں۔ مثبت اور خیر کے کاموں میں سوشل میڈیا کا استعمال جائز ہے۔ لیکن اس پر جھوٹ، فساد اور افواہیں پھیلانا ناجائز ہے۔ رسول اللہؐ کا فرمان ہے کہ ’’کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو (بغیر تحقیق کے) آگے پھیلاتا پھرے (صحیح مسلم)۔
سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو اُسے بہت سوچ سمجھ کر احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے۔ اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرنا، لوگوں کو تکلیف دینا، خاص طور سے غیر مستند اقوال، احادیث اور آیات کے ترجمے بغیر تحقیق کے آگے کرنا۔ یہ سب کسی طور جائز نہیں۔ سو عقل مند کے لیے اشارہ کافی ہے۔