اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس پاکستان کے چار روزہ دورے پر آئے۔ انہوں نے پاکستان میں بہت سے لوگوں سے ملاقات کی، اور تقاریب میں شرکت کی۔ حیرت ہے کہ بین الاقوامی میڈیا نے اس کو وہ اہمیت نہیں دی جو دینی چاہیے تھی۔ اس کی وجہ شاید ایک تو یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا اور دوسری یہ کہ انہوں نے وہ بیانات دیے جو پاکستان کے لیے خوش آئند تھے اور اس کی حمایت میں تھے۔ انتونیو صاحب نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پرتشدد اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش بھی کی۔ جس کو بھارت نے مسترد کردیا، اس سے قبل ٹرمپ بھی بھارت کو کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کی پیشکش کرچکے ہیں۔ اس پر بھی بھارت کا ردعمل منفی تھا۔ مودی نے اس پیشکش کو نہ مانا تھا… اور اٹوٹ انگ کا راگ الاپتا رہا۔ حال ہی میں امریکی کانگریس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش مبینہ طور پر مقبوضہ وادی کو نئی دہلی کی جانب سے الحاق کی وجہ بنی۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ بھارتی وزیراعظم کی طرف سے انہیں مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے لیے کہا جارہا ہے۔ ٹرمپ کا یہ بیان بھارتی پارلیمان میں تہلکہ مچا گیا اور مودی نے اپوزیشن کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ انہوں نے ٹرمپ کو ایسی کوئی پیش کش نہیں کی کشمیر کے الحاق کا قدم اٹھایا۔ مودی اس بات پر، پر اعتماد نہیں تھے۔ ٹرمپ کی خواہش کہ پاکستان افغانستان کی دلدل سے ’’خود کو نکالے‘‘ یعنی امریکا کو نکالنے میں تعاون کرے۔ اسے امریکا سے دوبارہ ایسی پاکستان حمایت کی توقع نہ تھی۔ یہ صورت حال ممکنہ طور پر بھارت کی جانب سے اگست میں کشمیر کے معاملے میں اقدامات کی وجہ بنی۔ بھارت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اب اپنے آپ کو علاقے کا چودھری تصور کرتا ہے… چنانچہ چودھری بن کر وہ کسی کی مدد حاصل کرے یہ بات اسے گوارا نہیں ہے اور یہی بات اسے کشمیر کے معاملے میں کسی تیسرے فریق کی ثالثی کی پیشکش قبول کرنے سے روکتی ہے۔
کچھ دن قبل ترکی کے صدر بھی پاکستان آئے تھے انہوں نے خاص طور سے اپنے خطاب میں کشمیر کے بارے میں ذکر کیا ان کا کہنا تھا کہ: ’’اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے باوجود کشمیری محصورین کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بھارت کے یک طرفہ اقدامات سے کشمیری بھائیوں کی تکالیف میں اضافہ ہوا ہے مسئلہ کشمیر کا حل جبری پالیسیاں نہیں بلکہ انصاف ہے‘‘۔ ترک صدر نے کشمیر کو ترکی کے لیے ’’چناکلے‘‘ قرار دیا چناکلے ترک کا وہ مقام ہے جہاں ترکی نے 1923ء میں اپنی آزادی کی فیصلہ کن جنگ لڑی تھی۔ اس معرکے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کا نوآبادیاتی چیلنجز کے خلاف ترکی کی سفارتی، اخلاقی، جانی اور مالی تعاون کا ذکر کیا انہوں نے کہا کہ وہ اس کے لیے بار بار شکریہ ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر ترکی کے لیے وہ ہے جو آپ کے لیے چناکلے تھا۔ پاکستان کا درد ترک کا درد ہے اور پاکستان کی خوشی ترکی کی خوشی ہے۔ صدر اردوان پاکستان کی پارلیمنٹ سے سب سے زیادہ خطاب کرنے والے غیر ملکی سربراہ مملکت ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان اور ترکی کی دوستی مفاد پر نہیں بلکہ عشق و محبت پر مبنی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی اپنے پورے دورے میں پاکستان کی تعریف کرتے رہے۔ انہوں نے افغان مہاجرین کے لیے پاکستان کی چالیس سالہ میزبانی کا اعتراف کیا۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد ضروری قرار دیا۔ سوال یہ ہے کہ ان قراردادوں پر کون عمل درآمد کرائے گا؟؟ انتونیوگوتریس کی ساری باتیں اپنی جگہ درست ہیں لیکن کیا کشمیر میں انسانی المیہ کے طویل عرصے کی وجہ خود اقوام متحدہ کا کردار نہیں ہے؟ آخر وہ کیوں بھارت کے خلاف اقدامات نہیں اٹھاتا؟؟ عشروں سے بھارت اس کی قرارداد کی خلاف ورزی کررہا ہے بلکہ اب تو حد ہی ہوگئی ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے الحاق کا فیصلہ بھارت نے کیا۔ پچھلے چھ ماہ سے زائد عرصے سے کشمیر میں کرفیو لگا کر کشمیریوں کی زندگی اجیرن کردی گئی ہے لیکن اقوام متحدہ کے سیکرٹری وہ ہی راگ الاپ رہے ہیں مذاکرات مذاکرات… آخر معاملہ جب جنوبی سوڈان کے صوبے کا ہوا تو مذاکرات کا معاملہ کیوں پرے دال دیا گیا اور فوری طور پر تیمور کو آزادی دلادی گئی۔
دراصل اقوام متحدہ بھی دہرے معیارات رکھتا ہے مسلمانوں کے معاملے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر اسے نہ کوئی تشویش ہے اور نہ اعتراض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گوتریس صاحب نے اپنے پورے دورے میں بھارت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور اسے بھارتی ریاست میں ضم کرنے پر کوئی بات کی نہ تشویش ظاہر کی۔ بھارت بھی اقوام متحدہ، امریکا اور مغرب کی باتوں کو گیدڑ بھبکیاں ہی سمجھتا ہے لہٰذا اس نے صاف کہہ دیا کہ کشمیر سے متعلق اس کا فیصلہ تبدیل نہیں ہوگا۔ پھر سوال وہی ہے کہ کشمیر کے ایک کروڑ مسلمان کیا کریں کیسے آزادی حال کریں؟ تو اس کا جواب وہی راستہ ہے جسے ترک کرنے کی سزا مسلمان کاٹ رہے ہیں جہاد، جہاد اور صرف جہاد… اور جہاد میں فتح افراد ور اسلحے کی بنیاد پر نہیں ایمان اور شوق شہادت کی بنیاد پر حاصل ہوتی ہے۔ آج کوئی مسلمان اس جذبے سے خالی نہیں کہ حسرت موہانیؔ کے بقول
تیرے سرفروشوں میں ہے کون ایسا
جسے دل سے شوق شہادت نہیں ہے