عنایت علی خان
انگریزی کا ایک مشہور مقولہ ہے ’’تاریخ خود کو دہراتی ہے‘‘
گو اردو کے معروف غزل گو شاعر عندلیب شادانی نے اس مقولے کی تکذیب میں کہا تھا۔
جھوٹ ہے سب تاریخ ہمیشہ اپنے کو دُہراتی ہے
اچھا، میرا خوابِ جوانی تھوڑا سا دُہرائے تو
لیکن ہر ضابطے کا کوئی نہ کوئی استثنا ہوتا ہے اور پھر ایک انگریزی مقولہ یاد آرہا ہے کہ استثنا ضابطے کی تصدیق کرتا ہے۔ لیکن شعر کے مقابلے میں تو شعر ہی آنا چاہیے نا سو وہ یہ ہے ؎
حادثہ کب کوئی دنیا میں نیا ہوتا ہے
صرف افراد و مقامات بدل جاتے ہیں
(عناؔیت)
پاکستان میں تو تاریخ بڑے واشگاف انداز میں دہرا رہی ہے کہ ہر ناپسندیدہ حکمران کے بعد عوام کی خوش فہمی کے علی الرّغم ناپسندیدہ تر حکمران ہی جلوہ فرما ہوتے رہے ہیں لیکن اس حقیقت کے ادراک میں کچھ وقت لگتا ہے بقول راقم عوام یہی کہتے سنائی دیتے ہیں کہ:
تم آئے تھے تو گویا اِک مسیحا بن کے آئے تھے
مگر اب تو تمہیں خلقِ خدا کچھ اور کہتی ہے
روایت یہ ہے کہ جب خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف جو نعرہ ’’گلی گلی میں شور ہے‘‘ کے مصداق پورے سرتال کے ساتھ پورے ملک میں گونج رہا تھا تو اس کے اپنے گھر کے بچوں نے معنی پر غور کیے بغیر فضا میں گونجتے نعروں کا ساتھ دیا تو ایوب خان نے (you too) اچھا تم بھی کہہ کر اپنی خراب ہوتی عزت کو اُس سے زیادہ خراب ہونے سے بچانے کے لیے کہ کہیں بات دوسرے حرام تر جانور سے منسوب نہ کردی جائے تو بقول اکبر الٰہ آبادی کہہ دیا:
یہی ٹھیری جو شرطِ وصل لیلیٰ
(مراد ہے لیلائے حکومت)
تو استعفا مرا با حسرت و یاس
ہر نئے آنے والے حکمران کی چیرہ دستیوں کے حوالے سے لب گور کفن چور اور اُس کے ہونہار بیٹے کا مکالمہ تو قارئین کو یاد ہی ہوگا جب بیٹے نے باپ کی اس تشویش کا ازالہ کیا تھا کہ لوگ برائی کے ساتھ یاد کریں گے اور اس سپوت نے واقعی اپنے عمل سے وہ پیش گوئی پوری کر دکھائی تھی کہ لوگ پرانے کفن چور کو دعائیں دے رہے تھے کہ کس رسانیت سے کفن کھینچ لیتا تھا۔
تو جناب اس طویل تمہید کے بعد اب آتے ہیں برسرِ مطلب یعنی برسرِ حالات کے جائزے پر تومشتے از خروارے (دیگ کے ایک چاول) کی مثال میں چینی کی قیمت کو لیتے ہیں۔ غالباً دو روپے (یا اس سے بھی کچھ کم) کے اضافے نے ایوب خان کا بھٹہ بٹھا دیا تھا۔ اب آگے آئیے بقول ہمارے موجودہ وزیراعظم سابقہ لٹیرے حاکم کے زمانے میں چینی تیس روپے کلو تھی اور نجات دہندہ کے دور میں صرف چالیس روپے کلو کے اضافے سے ستر روپے کلو تک جا پہنچی ہے۔ دیگر اشیا بھی علیٰ ہذا لقیاس آئی ایم ایف کی دہائی دیتی نظر آرہی ہیں۔ نہیں کروا دی سپوت نے کپوت کی تعریف؟ شنید یہ ہے کہ یہ چالیس روپے اضافے کے معاملے میں مشیرانِ کرام ہی نے چالیس چوروں والا کردار ادا کیا ہے۔ چینی کو بیرون ملک کا ایک چکر کیا لگوایا کہ اس کا دماغ آسمان پر پہنچ گیا۔ بقول مجید لاہوری مرحوم ۔ہر اک شے عالم بالاں پہنچی۔ ہمارا بول بالا ہورہا ہے۔
مہنگائی کے بارے میں ایک طرف وزیراعظم صاحب حسب معمول فرما رہے ہیں۔ میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ لیکن جب کسی نے سرگوشی میں اُن کو کسی کا پتا بتایا تو بقول حمایت علی شاعر:
راہزن کے بارے میں اور کیا کہوں کھل کر
میر کارواں یارو! میر کارواں یارو!
اور پتا چلا کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ یاران سرپل ہی نے کھایا ہے تو کسی کو نہیں چھوڑوں گابادنیٰ تصرف کسی کو نہیں چھیڑوں گا ہوگیا۔ اب سنا ہے منی بجٹ کی شکل میں عوام پر مزید تین سو ارب روپے کے ٹیکس لگا کر موجودہ دور کے عمر و عیار الموسوم بہ آئی ایم ایف کی زنبیل بھری جائے گی۔ ہم نے تو سالانہ بجٹ ہی کے موقع پر کہا تھا کہ۔
ابھی سے تم دہائی دے رہے ہو
ابھی تو یہ بجٹ بچے بھی دے گا
اب یہ ایک طرف یہ سخن فردوس گوش ہورہا ہے کہ معیشت کے اشارات مثبت جارہے ہیں اور خود وزیراعظم بھی عوام کو تسلی دے رہے ہیں کہ:
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
لیکن ابھی اُن کے تشفی مآب ارشادات کی گونج بھی تحلیل نہیں ہوپائی کہ غیر جانبدارانہ جائزے (سروے) تو الگ رہے اسٹیٹ بینک اور جلیبی کے محافظ عبدالحفیظ صاحب تک کہہ رہے ہیں کہ:
ایک اور دریا کا سامنا ہے ’’عوام تم کو‘‘
جب ایک دریا کے پار اترے تو دیکھ لو گے
ایسے ہی موقع پر فارسی کا مقولہ یاد آتا ہے کہ:
مَن چہ می سَرایم و طنبورئہ من چہ می سراید
’’میں کیا لے اٹھا رہا ہوں اور میرا طنبورہ (ستار) کیا راگ الاپ رہا ہے‘‘۔ اب ان دونوں میں سے کس کا راگ سچا ہے تو قول فیصل یہ ہے کہ ’’انسان کے سوا کائنات کی ہر چیز سچ بول رہی ہے۔ قرآن سودی نظام کو خدا اور رسول سے جنگ کا نام دیتا ہے اور ہم اس زہر کو تریاق سمجھ کر عوام کے حلق سے اتارنے پر مُصر ہیں اور ’’مِصر‘‘ کی اس لے پر کان دھرنے کو تیار نہیںکہ:
دیکھو مجھے جو دیدئہ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے
(مصر آئی ایم ایف کا ستم گزیدہ ہے) ہماری اپنی ’’دھن‘‘ یہ ہے کہ:
اگر کچھ تھی تو بس یہ تھی تمنا آخری اپنی
کہ وہ ساحل پہ ہوتے اور کشتی ڈوبتی اپنی
(شکیل بدایونی)