حکومت کو سخت سائبر قوانین بنانے ہوں گے،چیف جسٹس

115

لاہور(اے پی پی )چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ پہلے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سائبر جرائم کیا ہوتے ہیں، عام تاثر ہے کہ کمپیوٹر یا موبائل پر فیس بک اور واٹس ایپ پر سائبر جرائم ہوتے ہیں، دنیا میں سائبر جرائم اور قوانین کے حوالے سے بہت کام ہو رہا ہے، حکومت کو بھی سنجیدگی سے اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے، حکومت کو سخت سائبر قوانین بنانا ہوں گے ۔وہ ہفتے کے روز لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کے زیر انتظام سائبر قوانین کے حوالے سے ایک روزہ سیمینار سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر تقریب میں نامزد چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمد قاسم خان، جسٹس شاہد وحید، جسٹس علی باقر نجفی، جسٹس ملک شہزاد احمد، جسٹس مجاہد مستقیم احمد، جسٹس طارق سلیم شیخ، جسٹس جواد حسن، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد جمال سکھیرا، ڈی جی پنجاب جوڈیشل اکیڈمی حبیب اللہ عامر، رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ اشترعباس اور سیشن جج ہیومن ریسورس ساجد علی اعوان بھی موجود تھے۔ سائبر لاء سیمینار میں ججز، وکلا، فرانزک ایجنسی، پولیس، ایف آئی اے اور دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے نمائندوں اور ماہرین بھی موجود تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں سائبر کرائمز کے حوالے سے پہلا قانون 2016 ء میں بنا لیکن اس کے بعد اب کچھ کام ہوتا ہوا نظر آرہا ہے، مگر باعث افسوس ہے با ت ہے کہ پاکستان میں متعلقہ ادارے اس کو صرف ایک عام شکایت سمجھتے ہیں، ہمارے اداروں کو سائبر کرائمز کو عام جرم سے ہٹ کر سمجھنا چاہیے اور اس پر بھرپور توجہ دینا ہوگی جبکہ متاثرین کو جلد از جلد ریلیف مہیا کرنا ہوگا۔ فاضل چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ موبائل فون اور کمپیوٹر کو مثبت اور منفی طو ر پر استعمال کرنے والے دونوں طرح کے افراد کی کونسلنگ ضروری ہے، اس کے لئے مختلف این جی اوز کو کردار کرنا ہوگااور حکومت کو بھی سخت سائبر قوانین بنانے ہوں گے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہماری خواتین سمیت دیگر متاثرین بہت جلد انٹرنیٹ بلیک میلنگ سے نجات حاصل کرلیں گے۔سائبر قوانین کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مامون رشید شیخ نے کہا کہ پنجاب جوڈیشل اکیڈمی ہمارا بہترین ادارہ ہے۔ پنجاب جوڈیشل اکیڈمی نہ صرف ججز بلکہ نظام انصاف سے منسلک ملک بھر کے دیگر اداروں کے افراد کو تربیت فراہم کررہی ہے۔ جنرل ٹریننگ پروگرام سے لے کرحساس اور اہم موضوعات پر سیمینارز، کانفرنسز اور ورکشاپس کا انعقاد کا کریڈٹ بھی پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کے پاس ہے۔ سائبر قوانین کا نفاذ اس ڈیجیٹل ورلڈ میں بہت ضروری ہے، پاکستان میں بہترین سائبر قوانین موجود ہیں لیکن ہمارے بہت سے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس پر پوری طرح مہارت نہیں رکھتے۔سائبر جرائم کا شکار متاثرین اپنی شکایت کے اندراج میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں بلکہ بہت سارے لوگوں کو سائبر قوانین سے متعلق علم ہی نہیں ہوتا۔ سیمینار سے لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے “سائبر جرائم ایک عوامی مسئلہ” کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے معاشرے میں مختلف قسم کے سائبر جرائم ہیں جس سے بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہورہے ہیں، سائبر جرائم پر قابو پانے کے لیے سائبر قانون بھی موجود ہے لیکن عام آدمی کو آگہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ فورجری، سپیمنگ، آن لائن فنانشل فراڈ اور سوشل میڈیا کے ذریعے کسی کی ذات کو نقصان پہنچانے سمیت دیگر جرائم سائبر قوانین کے تحت آتے ہیں، مناسب ایجوکیشن نہ ہونے کی وجہ سے لوگ سائبر قوانین کے بارے میں زیادہ علم نہیں رکھتے، ڈیجیٹل سیفٹی ہر انسان کا بنیادی حق ہے، ہمارے اداروں کو لوگوں کی ڈیجیٹل سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے موثر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کے زیرِ اہتمام اس سیمینار کے بہت بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔