نیب لوگوں کو گرفتار کر کے تذلیل کررہا ہے، ذمے دار کون ہے ، اسلام آباد ہائیکورٹ

152

اسلام آباد( خبر ایجنسیاں)اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایل این جی اسکینڈل میں شاہد خاقان عباسی کی درخواست ضمانت پر دوران سماعت استفسار کیا کہ نیب لوگوں کو گرفتار کر کے ان کی جو تذلیل کر رہا ہے اس کا ذمے دار کون ہے؟ فیصلہ دیں گے چیئرمین نیب کے پاس شواہد کی روشنی میں وارنٹ جاری کرنے کا کتنا اختیار ہے؟ گرفتاری کا غلط استعمال بھی کرپشن ہے ۔ کیس کی سماعت جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس لبنی پرویز پر مشتمل ڈویژن بینچ نے کی ۔بیرسٹر ظفراللہ خان نے شاہد خاقان عباسی کی طرف سے کیس کی پیروی کی جبکہ نیب کی جانب سے پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ عدالت کے رو برو پیش ہوئے ۔بیرسٹر ظفراللہ نے عدالت کو بتایا کہ میرے مؤکل کو وارنٹ کی فوٹو کاپی پر گرفتار کیا گیا اور ڈیتھ سیل میں رکھا گیا جس پر چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ نے شاہد خاقان عباسی کو ڈیتھ سیل میں کیوں رکھا ؟نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ شاہد خاقان عباسی جوڈیشل لاک اپ میں تھے ،ڈیتھ سیل میں رکھنے کے حوالے سے کوئی اطلاعات نہیں ،ایل این جی منصوبے پر ایک روپیہ حکومت کا نہیں لگا ہر شپ منٹ پر حکومت کو پیسہ ملتا ہے پھر جرم کہاں ہوا؟ اگر کرپشن ہوتی تو موجودہ حکومت نے بھی ٹرمینل کا کنٹریکٹ انہی بنیادوں پر کیوں دیتی جس پر تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ایسا نہیں ہوا موجود ٹرمینل کے معاملات ابھی حتمی طور پر طے نہیں پائے ،عدالت نے حکم دیا کہ نیب تفتیشی ریکارڈ کے ساتھ مطمئن کریں۔وکیل صفائی نے عدالت کو دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ نیب کیس بنانے کے لیے شاہد خاقان عباسی کے ذاتی اکائونٹس دکھا رہا ہے کسی کمپنی کے اکائونٹ کا ریکارڈ دیں ۔عدالت نے استفسار کیا کہ نیب بتائے گرفتاری کی وجہ کیا بنی جس پر نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ٹھوس شواہد موجود تھے جس کی وجہ سے گرفتار کیا گیا اس کیس میں 3 وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں ،عبوری ریفرنس دائر ہوچکا ہے ،درخواست ضمانت پر سماعت 20 فروری تک ملتوی کر دی گئی ۔علاوہ ازیںاسلام آباد ہائیکورٹ نے تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد پر پابندی عاید کرتے ہوئے فریقین کوجواب کے لیے نوٹس جاری کرکے وفاقی اداروں میں بچوں پر تشدد کی قانونی گنجائش کو تاحکم ثانی معطل کردیا۔سماعت کے دوران درخواست گزار شہزاد رائے اپنے وکیل کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے اور استدعا کی پینل کوڈ کی سیکشن 89 میں بچوں پر تشدد کی گنجائش بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے،بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت تشدد سے بری طرح متاثر ہوتی ہے ۔عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کر کے5 مارچ تک جواب طلب کر لیا ۔