بیجنگ: چین کے سائنسدانوں نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ چین میں کرونا وائرس کے پھیلنے میں ‘پینگولن’ پر شک ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ معدومیت کے خطرے سے دو چار جانور پراسرار کرونا وائرس کو انسان میں منتقل کرنے کا سبب بنا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والے پراسرار کرونا وائرس نے اب تک 630 افراد کی جان لے لی ہے اور 31 ہزار افراد میں وائرس کے موجود ہونے کی تصدیق ہوگئی ہے۔سائنسدانوں کو شروع ہی سے اس بات کا شک ہے کہ کرونا وائرس گزشتہ برس کے آخر میں چین کے شہر ووہان کی مارکیٹ سے کسی جانور سے انسان میں منتقل ہوا۔
چین کی ساؤتھ چائنا ایگریکلچر یونیورسٹی کےمحققین نے اس پراسرا وائرس کو انسانوں میں منتقل کرنے کا شبہ پرت دار جانور پینگولن پر ظاہر کیا ہے البتہ انھوں نے مزید کوئی معلومات جاری نہیں کی ہیں۔
کرونا وائرس کے حوالے سے خیال کیا جارہا ہے کہ چمگادڑوں سے آگے پھیلا تاہم محققین کہتے ہیں کہ وائرس چمگادڑ سے براہ راست انسانوں تک نہیں پہنچا بلکہ درمیان میں کسی اور جانور نے وائرس کو آگے پہنچانے کا کام کیا ہے۔
چین کے سائنسدانوں نے جاننے کیلئے 1000 سے زائد جنگلی جانوروں کے نمونے حاصل کیے جن کے مشاہدے سے معلوم ہوا کہ پینگولن میں موجود وائرس کے کروموسوم کی ترتیب کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے کروموسوم کی تربیب سے 99 فیصد تک مماثلت رکھتے ہیں۔
بین الاقوامی یونین برائے تحفظِ قدرت (آئی یو سی این) کے مطابق پینگولن کو دنیا میں سب سے زیادہ سمگل کیا جانے والا جانور تصور کیا جاتا ہے، افریقا اور ایشیا میں پچھلے کئی سالوں میں 10 لاکھ سے زائد پینگولن کو پکڑا جاچکا ہے۔
چین اور ویتنام کی بازاروں میں پینگولن خرید و فروخت کے لیے بھیجے جاتے ہیں، پینگولن کے جسم پر موجود چھلکوں کا کوئی طبی فائدہ نہیں ہے مگر اس کے باوجود اس کے ان کے چھلکوں کو ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس کے گوشت کو بلیک مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر جیمز ووڈ کا کہنا ہے کہ صرف بتانا کہ پینگولن میں موجود وائرس کے کروموسوم کی ترتیب کرونا وائرس کے مریض کے جینوم سے مماثلت رکھتی ہے، کافی نہیں ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ وائرس سے متاثرہ ماحول میں رہنے کی وجہ سے بھی ایسے نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ جنوری میں چین میں کرونا وائرس کے پیشِ نظر جنگلی جانوروں کی تجارت پرعارضی طور پابندی عائد کردی گئی تھی۔
چین پر الزام ہے کہ وہاں معدومیت کے خطرات سے دوچار جانوروں کی تجارت کی جاتی ہےجن کا استعمال غذا کےطور پر یا قدیم روایتی دواؤں کی تیاری میں ان کا استعمال کیا جاتا ہے۔
انٹرنیٹ پر چین کےشہر ووہان کی مارکیٹ میں موجود مختلف جانوروں یا ان جانوروں سے بنی چیزوں کی قیمتیں گردش کررہی تھیں جن میں لومڑی، مگرمچھ، بھیڑیے کے بچے، سانپ، چوہے، مور، خارپشت، اونٹ کا گوشت اور دیگر 112 چیزیں شامل ہیں۔
واضح رہے کہ 03-2002 میں چین اور ہانک کانگ میں پھیلنے والے سارس وائرس نے بھی سیکڑوں افراد کی جان لی تھی اور سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ سارس وائرس ابتدائی طور پر چمکادڑ میں پیدا ہوا اور پھر ایک قسم کی بلی ‘مشک بلاؤ یا گربہ زباد’ کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا۔
اس بارے میں پروفیسر جیمز ووڈ کا کہنا ہے کہ جنگلی جانوروں کی تجارت کے خاتمے کے ذریعے ہی اس طرح کے خطرناک مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے جو جانوروں کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔